|

وقتِ اشاعت :   August 12 – 2021

مستونگ: نیشنل پارٹی مستونگ اور بی ایس او پجار کے زیر اہتمام میونسپل کمیٹی ہال میں بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی برسی کی مناسبت سے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔تعزیتی ریفرنس سے نیشنل پارٹی کے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری اسلم بلوچ ضلعی صدر نواز بلوچ بی ایس او پجار کے صوبائی صدر بابل ملک بلوچ سجاد دہوار و دیگر مقررین نے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی حالت زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میرغوث بخش بزنجو صاحب کی سیاسی فلسفہ سے ہی قومی وطنی اہداف کی تکمیل کو شعوری طور پر ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

سیاست میں اقدار سنجیدگی، بردبادی برادشت اور رواداری کو متعارف بابائے بلوچستان نے کیا۔لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے بھڑک بازی طوفان بدتمیزی اور مفاد پرستی کے کلچر کو فروغ دیا گیا۔جس نے مجموعی طور پر ملک کی سیاست معیشت اور سماج کو بگاڑ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میر غوث بزنجو نے تمام عمر شعوری و فکری بنیادوں پر جدوجہد کی۔قومیتوں کی شناخت و سوال کو مسخ کرنے کی کوشش نے ملک میں انارکی انتشار مسائل کا شکار کردیا۔انہوں نے کہا کہ بابائے بلوچستان کی جدوجہد کا محور ہی قومی سوال کے حل جمہوریت کے استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے تھی۔

بابائے بلوچستان آمریت کو زہر قاتل قرار دیتے تھے۔جو ملک کو بربادی کی طرف دھکیلتا ہے۔ مقررین نے کہا کہ جمہوری شعوری اور فکری اصولوں کی پاداش میں میر غوث بخش بزنجو نے طویل اور سخت قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن اپنے سیاسی فلسفہ پر سمجھوتا نہیں کیا۔نیشنل پارٹی کے کارکن بابائے بلوچستان کے سیاسی فلسفہ پر کاربند رہ کر قومی مقاصد کے حصول کیلیے جدوجہد کررہے ہیں۔

تعزیتی ریفرنس سے نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار کے ضلعی تحصیل عہدیداروں اور رہنماوں ضلعی نائب صدر حاجی نذیر سرپرہ ضلعی لیبر سیکرٹری نذیر بگٹی تحصیل صدر نثار مشوانی، میر سکندر ملازئی ناصر بلوچ میر احمد بلوچ میر پسند خان شاہوانی مولوی علی احمد سرپرہ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔مقررین نے کہا کہ اگر ریاست کا رویہ اپنے چھوٹی اکائیوں کے عوام کے ساتھ ظالمانہ طریقے پر جاری رہا تو یہاں کے عوام کے دلوں میں ریاست اور اس کے اداروں کے لیے محبت پیدا کرنا ناممکن ہے۔

کیونکہ ریاست ماں کی حیثیت رکھتا ہے اور ماں کے لیے سارے فرزند برابر کی حیثت رکھتے ہیں۔اگر ماں کا رویہ محتصبانہ ہو تو پھر اولادوں کے دل میں بھی نفرت کا پیدا ہونا فطری عمل ہوتا ہے۔ایک طرف حکمران بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات کی بات کرتے ہیں دوسری طرف بلوچ نوجوانوں کی ماورائے آئین و قانون اغواء نما گرفتاری اور لاپتہ کرنے کا سلسلہ تیز ہوتا جارہا ہے۔حکمرانوں نے اغوا کاروں بھتہ خوروں غنڈوں اور کارڈ ہولڈرز کے زریعے اپنے مفادات کا حصول چاہتے ہیں۔جسے بلوچستان کے عوام کسی صورت قبول نہیں کرتے۔بلوستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ بزور طاقت گزشتہ 73 سالوں میں حکمران آج تک بلوچستان کے مسلے کو حل کرنے میں ناکام رہے۔بلوچ قوم اور بابائے بلوچستان کے قومی سوچ و فکرو فلسفے کو بزور طاقت ختم نہیں کرسکتے۔