|

وقتِ اشاعت :   August 13 – 2021

گزشتہ چند ماہ سے افغانستان میں جاری جنگ سے خطے کے ممالک شدید تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر افغانستان پھر ایک بار پھرخانہ جنگی کی طرف گیا توافغانستان میں انسانی بحران تو جنم لے گا مگر ساتھ ہی اس کے انتہائی منفی اثرات خطے کے ممالک پر بھی پڑینگے۔اس لئے کوشش یہی کی جارہی ہے کہ افغانستان میں اندرون خانہ جو جنگ جاری ہے اسے بات چیت کے ذریعے فریقین کے درمیان حل کیاجائے تاکہ افغانستان سمیت خطے میں امن کا خواب پورا ہوسکے جو کہ دہائیوں سے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں جاری جنگ میں تیزی آئی ہے۔

ایک طرف افغان حکومت اور دوسری جانب افغان طالبان مدِ مقابل ہیں حالانکہ جب دوحا امن معاہدہ ہوا تو اسے بڑی پیشرفت قرار دیاجارہا تھا کہ افغانستان جو دہائیوں سے جنگی حصار میں ہے اب امن کا دور آئے گا اور افغانستان میں امن وترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا، یہ معاہدہ چندنکات پر مشتمل تھا گوکہ اس میں افغان حکومت کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی،امریکہ اور طالبان کے درمیان یہ معاہدہ طے پایاتھا مگر اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ جب تک تمام افغان اسٹیک ہولڈرز کو امن عمل میں شریک نہیں کیاجائے گا امن کا خواب پورا نہیں ہوگا اور خدشہ یہی تھا کہ افغانستان خانہ جنگی کی طرف جائے گا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ بہرحال اب ایک نئی امید کی کرن پیدا ہوچکی ہے۔

افغان حکومت نے ملک میں جاری جنگ روکنے کے لیے طالبان کو شراکت اقتدار کی پیش کردی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ٹرائیکا پلس مذاکرات کے دوران افغان حکومت کے مذاکرات کاروں نے طالبان کو پیشکش کی کہ وہ ملک میں جاری جنگ کے خاتمے کے بدلے طالبان کو اقتدار میں شریک بنانے کے لیے تیار ہیں۔ذرائع کے مطابق افغان حکومت کے مذاکرات کاروں نے یہ پیشکش براہ راست طالبان کو نہیں بلکہ مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے ملک قطر کو کی ہے جس نے یہ بات افغان طالبان تک پہنچا دی ہے تاہم اس حوالے سے اب تک طالبان کا مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔واضح رہے کہ امریکا نے 20 سالہ طویل جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے افغانستان سے مکمل انخلاء کا اعلان کیا ہے اور 11 ستمبر 2021 تک یہ انخلا مکمل ہونے کا امکان ہے۔

انخلا کے اعلان کے بعد سے ہی طالبان نے مختلف اضلاع میں طاقت کے زور پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے تک ان کی جنگ جاری رہے گی۔دوسری جانب امریکا سمیت بیشتر ممالک یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر طالبان نے طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور وہ دنیا میں تنہا رہ جائیں گے۔پاکستان بھی اس حوالے سے واضح بیان جاری کرچکا ہے کہ وہ کابل پر زبردستی قبضے کو قبول نہیں کرے گا۔اب افغان طالبان پر مکمل ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امن کے حوالے سے اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں یا نہیں کیونکہ افغان طالبان کی جانب سے بارہا یہ کہاجاچکا ہے کہ وہ پُرامن طریقے سے افغانستان کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں اور طاقت کے ذریعے وہ افغانستان میں حکومت قائم کرنے کی نیت نہیں رکھتے بلکہ دیگرممالک کے سفیروں کو بھی افغانستان سے نہ جانے کے حوالے سے باقاعدہ بیان بھی دیا ہے مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب افغان اسٹیک ہولڈرز کی رضامندی کے ساتھ ایک عبوری حکومت کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی پھر دیگر معاملات طے پائینگے وگرنہ طاقت کے استعمال سے افغانستان میں امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔