کوئٹہ: اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ میری وجہ سے اسمبلی کے اسمبلی کے ساتھ ناروا سلوک ہو رہا ہے، اگر میں قابل قبول نہیں تو مجھے ہٹا کر کوئی قابل قبول اسپیکر لائیں ،تین سال سے ایوان کا تقدس پامال کیا جارہا ہے ،جب ہم تین سال میں اسمبلی کے مائیک ٹھیک نہیں کرسکے تو مزید کیا کرسکیں گے۔
2008ء سے میں آواران کا ایم پی اے ہوں میرے ساتھ اپوزیشن جیسا رویہ اختیار کیا جارہا ہے ۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں تو وزراء کو بھی آدھا آدھا گھنٹہ انتظار کرایا جاتا ہے تین سال میں کوئی ایک تصویر ایسی دکھائیں جو وزراء ، مشیران یا معاونین خصوصی کے علاوہ ہو کوئی قبائلی رہنماء وزیراعلیٰ سے ملنے گیا۔ بلوچستان پاکستان کا اہم حصہ ہے کوئی مائی کا لعل اسے جدا نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات سے ہمارے جذبے اور وطن سے ہماری محبت کم نہیں ہوگی دہشت گرد یہ نہ سمجھیں کہ وہ کسی جھنڈے بیچنے والے پر حملہ کرکے اپنے عزائم میں کامیاب ہوں گے ۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے میر یونس عزیز زہری اسمبلی کے مائیک ٹھیک نہ کیے جانے کے خلاف احتجاجا ایوان میں میگا فون لے ائے۔
جمعرات کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میری وجہ سے بلوچستان اسمبلی سے کیوں ناروا سلوک ہورہا ہے ، تین سال قبل قائد ایوان نے اسمبلی میں خود اعلان کیا اورنوابزادہ طارق مگسی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ایوان کی تزئین وآرائش ، کرسیاں اور مائیک تبدیل کئے جائیں گے یہ ایوان جو پورے صوبے کا چہرہ ہے۔
مگر مسلسل تین سال سے اس کا منظور شدہ منصوبہ فیزبیلٹی رپورٹ تیار ہونے کے باوجود پی ایس ڈی پی سے نکالا جارہا ہے آج کے اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے میر یونس عزیز زہری میگا فون لیکر آئے تو کیا یہ حکومت کیلئے کوئی اچھا پیغام ہے ؟ وزیراعلیٰ خود جب ایوان میں خطاب کررہے تھے تین مرتبہ ان کا مائیک بند ہوگیا تھا یہی کچھ ایک اجلاس میں شکیلہ نوید دہوار کے۔
ساتھ ہوا جب ہم تین سال میں مائیک ٹھیک نہیں کرسکے تو مزید کیا کرسکیں گے ایوان میں موجود کرسیاں 25 سال پرانی ہیں ان کی مرمت تک نہیں ہوئی اسمبلی کی تین عمارتیں ہیں مگر ان میں مرمت کی مد میں ایک روپیہ تک نہیں دیا گیا ان تینوں عمارتوں میں کوئی چیز خراب ہو ایک بلب تک فیوز ہو تو ہم کچھ نہیں کرسکتے ،انہوں نے کہا کہ اگر اسمبلی کا جرنیٹر خراب ہو یا کوئی فوری نوعیت کامعاملہ ہوں تو ہم فنڈز کاانتظار تو نہیں کرسکتے ، میں سمجھتا ہوں کہ اسمبلی کے ساتھ یہ سب کچھ میرے اسپیکر ہونے کی وجہ سے ہورہاہے۔
اگر میں قابل قبول نہیں تو مجھے ہٹا کر کوئی قابل قبول اسپیکر لائیں 2008ء سے میں آواران کا ایم پی اے ہوں میرے ساتھ اپوزیشن جیسا رویہ اختیار کیا جارہا ہے ، اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ آواران کو صوبائی حکومت نے تو مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے مگر وفاقی حکومت کے مشکور ہیں کہ انہوں نے این 8اور آوارا ن بیلہ روڈ کی منظوری دی جس پر اس کاشکریہ ادا کرتے ہیں۔
اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے میر یونس عزیز زہری نے کہاکہ بلوچستان اسمبلی نے آج تیسرا پارلیمانی سال مکمل کرلیا لیکن ان تین سالوں میں اس ایوان کی نہ تو مائیک اور نہ کرسیاں ٹھیک ہوسکیں اس موقع پر انہوں نے میگا فون لہراتے ہوئے کہا کہ ایوان کے مائیک خراب ہیں میں یہ میگا فون کا تحفہ اسمبلی کو دیتا ہوں۔صوبائی وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے میر ضیا لانگو نے کہا۔
کہ اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے اسمبلی کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ہم وزیراعلیٰ جام کمال خان کے ساتھ مل کر ان مسائل کو حل کریں گے بلوچستان اسمبلی پورے صوبے کا چہرہ ہے اس کو بہتر ہونا چاہئے ہم وزیراعلیٰ تک اسپیکر کے خدشات پہنچائیں گے ، اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ہم تین سال سے مسلسل بتا رہے ہیں۔
لیکن پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا شاید یہ کام میری وجہ سے نہیں ہورہے اسمبلی کی تین عمارتیں ہیں ان کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا جبکہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ جو عوام کے لئے بند ہے لیکن اس کے لئے ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہورہے ہیں اسمبلی عوام کا چہرہ ہے عوام کہتے ہیں کہ ہماے مسائل یہ کیا حل کریں گے جب اسمبلی کے اپنے مسائل حل نہیں کرتے۔
جس پر وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے کہا کہ عوام وزیراعلیٰ ہاوس جاتے ہیں وزیراعلیٰ ہاوس کے دروازے عوام کے لئے بند نہیں جس پر اسپیکر نے کہا کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں تو وزراء کو بھی آدھا آدھا گھنٹہ انتظار کرایا جاتا ہے تین سال میں کوئی ایک تصویر ایسی دکھائیں جو وزراء ، مشیران یا معاونین خصوصی کے علاوہ ہو کوئی قبائلی رہنماء وزیراعلیٰ سے ملنے گیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی نے تیسرا پارلیمانی سال مکمل کرلیا ہے اس دوران میں بلوچستان کے عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے ان میں اضافہ ہوا جس پر تین سال مکمل ہونے پر مبارکباد وصول کرنے کی بجائے شرمندگی ہوتی ہے تین سال کے دوران ہم اپنے عوام سے کئے ہوئے وعدے پورے کرنا تو درکنار اس ایوان کی کرسیاں ، قالین اور مائیک تک ٹھیک نہیں کرسکے تین سال قبل میں نے اس ایوان کی تزئین وآرائش اور مائیک تبدیل کرنے سے متعلق مسئلہ اٹھایا تھا۔
جس پر ایوان میں کمیٹی بنی تھی حکومت نے اس مد میں فنڈز بھی مختص کئے تھے ، اسمبلی کے موجودہ اور سابق سیکرٹری یا ہم ہوں ہم سے غلطیاں ہوئیں میں نے پہلے دن کہا کہ ایوان کی تزئین وآرائش کا کام اسمبلی سیکرٹریٹ خود دیکھے تاکہ کمیشن جیسے مسائل سے بچا جاسکے مگر ایسا نہیں ہوا جس پر اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ہم یہ کام نہیں کرسکتے۔
اور نہ ہی ہمارے پاس انجینئرز ہیں جب کہ ہم ٹینڈر بھی نہیں کراسکتے یہ تمام کام سی اینڈ ڈبلیو کرتا ہے ، اسپیکر نے ثناء بلوچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب تو یہ منصوبہ بھی پی ایس ڈی پی سے نکال دیاہے جس پر ثناء بلوچ نے کہا کہ منصوبہ نکال دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسپیکر کا عہدہ بڑا اور طاقت ور ہوتا ہے آپ اس سلسلے میں اپنا کردارادا کریں ہم اس ایوان کو ڈیجیٹل بنانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اسپیکر کی توجہ واشک کی تحصیل بسیمہ کی یونین کونسل ساجد میں گزشتہ سال آنے والے زلزلہ متاثرین امداد کی عدم فراہمی کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں قرارداد منظور ہونے کے بعد گزشتہ سال متاثرین کی امداد کیلئے 25کروڑ روپے دینے کا فیصلہ ہوا مگر وہ فائل آج بھی وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ایک دستخط کیلئے پڑی ہوئی ہے۔
امداد نہ ملنے پر وہاں کے عوام خاص کر خواتین سراپا احتجاج ہیں اس موقع پر ثناء بلوچ کی جانب سے پی ڈی ایم اے کے ذکر پر ثناء بلوچ اور ضیاء اللہ لانگو کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا ، ثناء بلوچ نے کہا کہ اگر 15 دن میں ساجد کے زلزلہ متاثرین کو امداد نہیں دی گئی تو سخت احتجاج کیاجائے گا۔ پارلیمانی سیکرٹری خلیل جارج نے بلوچستان اسمبلی کا تیسرا پارلیمانی سال مکمل ہونے پر ایوان کو مبارکباد دیتے ہوئے ۔
کہا کہ دعا ہے کہ جمہوریت اسی تسلسل سے جاری رہے تاکہ ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچیں انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ اپوزیشن تنقید کرے اور حکومت اپنا موقف پیش کرئے ، انہوں نے کہا کہ 11 اگست کو ملک بھر میں یوم اقلیت کے طور پر منایا گیا اس سلسلے میں ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی تقریبات ہوئیں انہوں نے کہا کہ 1985ء سے بلوچستان اسمبلی میں اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔
جبکہ اس دوران دو بار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے اقلیتی نشستیں نہ بڑھنے پر ہمارے لوگ احتجاج کررہے ہیں اس وقت پورے بلوچستان میں اقلیتوں کے تین نمائندے ہیں جو پور ے صوبے میں اقلیتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جن کیلئے پورے صوبے کے مسائل حل کرنا آسان نہیں۔جمعیت علماء اسلام کے میر زابد ریکی نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے۔
کہا کہ گزشتہ شب آپ کا سوشل میڈیا میں پیغام دیکھنے اور آج آپ کی باتیں سن کر افسوس ہوا کہ ہم اپوزیشن ارکان سے تو انتقامی کارروائیاں ہورہی ہیں مگر آپ اسپیکر اور حکومتی جماعت کے اہم رہنماء ہیں آپ کے ساتھ یہ کچھ ہورہا ہے دوسری جانب ایوان کی کرسیوں اور مائیک کی یہ حال ہے تین سال میں حکومت نے کوئی کام نہیں کیا صرف کرپشن ، بینک بیلنس اور پروٹوکول پر توجہ دی گئی۔
اس موقع پر انہوں نے اسپیکر سے کہا کہ وہ اپنے موقف پر اسٹینڈ لیں کامیاب ہوجائینگے جس پر اسپیکر نے ازراہ مذاق کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں جلد ہٹ جاوں اس موقع پر اسپیکر اور زابد ریکی کے درمیان دلچسپ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا زابد ریکی نے زور دیا کہ یونین کونسل ساجد کے متاثرین زلزلہ کو جلد امداد دی جائے اس موقع پر اسپیکر نے صوبائی داخلہ وپی ڈی ایم اے میر ضیاء اللہ لانگو کومخاطب کرتے ہوئے۔
کہا کہ ہم آواران میں زلزلے کے اثرات دیکھ چکے ہیں وہاں پر دو تین بار سروے کرانے کے باوجود کچھ گھر رہ گئے تھے ساجد میں اگر دوبارہ سروے کرانے کی ضرورت ہے تو کرائی جائے اور جو گھر سروے سے رہ جاتے ہیں انہیں شامل کیا جائے اور متاثرین کی امداد کی جائے۔بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے۔
کہ ہمارے حلقوں میں مداخلت ہورہی ہے آج اسپیکر نے بھی انہی خدشات کا اظہار کرکے ہماری بات کی تائید کردی ہے انہوں نے کہا کہ ارسا کی وجہ سے پانی نہ ملنے سے نصیرآباد ڈویڑن میں فصلیں خراب ہوگئی ہیں سریاب میں چھاپے مارے جارہے ہیں کیا سریاب کے لوگ دھماکے کررہے ہیں سیرینا چوک پر دھماکہ حکومت کی ناکامی اور سیکورٹی لیپس تھا جدید ترین کیمرے لگائے گئے۔
مگر پھر بھی دہشت گردی کی واردات ہوئی ہیں سریاب کے عوام حتیٰ کہ ایک عالم دین تک کو بھی تنگ کیا جارہا ہے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں کل کو لوگ احتجاج پر نکلیں گے انہوں نے کہا کہ تین سال سے قمبرانی روڈ پر اسکول کے قیام کی تجویز دی ہے جو ہر بار نکال دی جاتی ہے ، اسمبلی کا مائیک سسٹم بھی خراب ہے۔جمعیت علماء اسلام کے اصغر ترین نے بھی اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے ۔
کہاکہ آپ نے سوشل میڈیا پر جو پیغام دیا اور آج تحفظات کا اظہار کیا ہم بہت عرصے سے یہ سب کہتے آرہے ہیں ہم گزشتہ تین سال میں عوام کے 5 فیصد بھی کام نہیں کرسکے ہم نے اس ایوان میں بلوچستان کے ہر مسئلے پر آواز بلند کی مگر نہ تو حکومت عوام کو تعلیم ، صحت ، پانی سمیت دیگر سہولیات فراہم کرسکی اور نہ ہی امن قائم کرسکی ہے۔
اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے ذاتی وضاحت کے نکتے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن ارکان نے پی ڈ ی ایم اے سے متعلق سوالات پر تحریری جوابات کو غلط انداز میں پیش کرکے میرا اور میرے ادارے کا استحقاق مجروح کیا ، انہوں نے اسپیکر سے استدعا کی کہ اس سلسلے میں کارروائی کی جائے۔
اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو نے صوبائی وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں آپ نے خود اس معاملے کو کمیٹی کے سپرد کرنے کی بات کی تھی جس سے آپ کی نیک نیتی واضح ہوجاتی ہے کمیٹی میں تمام چیزیں سامنے آجائیںگی۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے۔
کہاکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران دشت کے علاقے میں گمنام قبرستان کے نام سے ایک قبرستان بنا ہے جہاں پر ایدھی اور چھیپا والے گمنام لوگوں کی لاشیں دفنا رہے ہیں گزشتہ دنوں بھی سوشل میڈیا پر چھیپا ایمبولینس کے اہلکاروں کو دس لاوارث لاشیں دفناتے ہوئے۔
دیکھا گیا انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں دیگر مسائل کے ساتھ لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی ہے توتک میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کے بارے میں بھی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی انہوں نے اسپیکر سے استدعا کی کہ چھیپا ایمبولینس سروس والوں کو بلا کر ان سے پوچھا جائے کہ ان کو یہ دس لاشیں کس نے دفنانے کیلئے دیں۔