افغان حکومت نے ملک کی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کر لیاہے۔صدارتی محل کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے سیاسی اور قبائلی رہنماؤں سے مشاورت کی ہے جس میں طے پایا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سے بات چیت کے لیے مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
کمیٹی سیاسی اور قبائلی رہنماؤں پر مشتمل ہوگی۔واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی انخلا کے بعد طالبان نے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کی پیش قدمی مسلسل جاری ہے ، طالبان کابل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ متعدد ممالک نے اپنے سفارتخانے بھی بند کر دیئے ہیں۔دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔
اور افغان فوج سے لڑائی میں وہ آہستہ آہستہ دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ کابل کے قریب شہر میدان شار میں دونوں فریقین کی لڑائی جاری ہے جبکہ طالبان نے ملک کے نصف صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان نے ملک کے دوسرے بڑے اور اہم تجارتی شہر قندھار پر بھی قبضہ حاصل کر لیا ہے۔
اور اب صوبہ لوگر میں داخل ہو چکے ہیں۔طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ چکے ہیں جبکہ ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے باعث لاکھوں افراد نے کابل کی جانب نقل مکانی کی ہے ۔رپورٹس کے مطابق طالبان نے اب شمالی افغانستان کے بیشتر حصے پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے اور ملک کے ایک تہائی صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ ایک ماہ کی لڑائی کے دوران 1000 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ لاکھوں افراد ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔متعدد یورپی ممالک نے بھی افغانستان میں اپنے سفارتخانے بند کر دئیے ہیں اور غیر ضروری سفارتی عملے کو واپس بلا لیا ہے۔برطانیہ اور امریکہ نے بھی اپنے فوجی کابل بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
تاکہ وہاں پھنسے اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کو بحفاظت نکالنے میں معاونت کی جا سکے۔امریکی اور غیر ملکی افواج طالبان کے ساتھ معاہدہ کے تحت بیس سال بعد افغانستان سے واپس جا رہی ہیں اور غیر ملکی افواج کا انخلا ء11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔واضح رہے کہ بیشتر شہروں پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے صحافیوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے۔
کہ انہیں آزادی سے کام نہیں کرنے دیا جائے گا اور اسی وجہ سے کئی صحافی ملک چھوڑنے کی تگ و دو میں ہیں۔بہرحال افغان حکومت کی جانب سے یہ بڑا اعلان کیا گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے افغانستان کی بگڑتی صورتحال پر قابوپانے کی کوشش کی جائے گی ۔ اس سے قبل بھی طالبان کو حکومتی شراکت داری کے حوالے سے پیشکش کی گئی تھی۔
مگر اس کا کوئی خاطر خواہ جواب طالبان کی جانب سے نہیں آیا ۔ اب افغان حکومت کے ساتھ طالبان مذاکرات کرینگے اور کن نکات کے تحت طالبان جنگ بندی کافیصلہ کرینگے یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ طالبان کی جانب سے مسلسل افغانستان میں پیش قدمی جاری ہے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے مگر بارہا اس جانب اشارہ دیاجارہا ہے۔
کہ طاقت کے ذریعے افغانستان میں امن کبھی نہیں آسکتا اس لئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا اور ایک عبوری حکومت کی تشکیل کیلئے پہلے بات چیت ہونی چاہئے جس میں تمام افغان اسٹیک ہولڈرز کی مرضی ومنشاء شامل ہو تاکہ جنگی فضاء ختم ہونے کے امکانات پیدا ہوسکیں وگرنہ طاقت کا استعمال افغانستان کو مزید خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا ۔