|

وقتِ اشاعت :   August 21 – 2021

 

سخت قوانین بنانے کی ضرورت وزیراعظم عمران خان نے مینار پاکستان پر ہجوم کی جانب سے خاتون کو ہراساں کرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے خاتون سے بدتمیزی پر انسپکٹر جنرل پولیس سے رابطہ کر کے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔واضح رہے کہ 14 اگست کے روز300 سے زائد افراد پر مشتمل ایک ہجوم نے اس وقت خاتون پر حملہ کیا جب وہ اپنے یوٹیوب چینل کے لیے ویڈیو بنارہی تھیں۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے کی گردش کرتی مختلف ویڈیوز میں متاثرہ لڑکی کو مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔یہ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد لاہور پولیس نے متاثرہ لڑکی کی درخواست پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔منگل کے روز متاثرہ لڑکی نے لاہور کے تھانہ لاری اڈہ میں درخواست دی کہ وہ 14 اگست کو شام ساڑھے چھ بجے اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ گریٹر اقبال پارک میں یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنا رہی تھی کہ یکدم وہاں پر موجود تین چار سو سے زیادہ افراد کے ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا۔درخواست کے مطابق لڑکی اور ان کے ساتھیوں نے ہجوم سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے اور اسی دوران وہ گارڈ کی جانب سے جنگلے کا دروازہ کھولے جانے کے بعد اندر چلے گئے لیکن ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ لوگ جنگلے کو پھلانگ کر ان کی طرف آئے اور کھینچا تانی کی۔لڑکی نے درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ ہجوم میں موجود لوگ ان کو اٹھا کر ہوا میں اچھالتے رہے اور ان کے کپڑے بھی پھاڑ دئیے۔متاثرہ لڑکی نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ ان پر تشدد کیا گیا اور ان کا موبائل فون ،نقدی اور سونے کے ٹاپس بھی چھین لیے گئے۔یہ انتہائی شرمناک واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں خواتین ، بچیوں سمیت چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز بھی زیادہ رپورٹ ہورہے ہیں اخلاقی طور پر لوگ اس حد تک گِرچکے ہیں کہ دن دہاڑے ہجوم کی صورت میںخاتون کو ہراساں کرکے اسے تشدد کانشانہ بنایاجاتا ہے جو ہمارے اخلاقی پستی کاواضح اظہار ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ صدا بلند ہورہی ہے کہ زیادتی جیسے خطرناک واقعات کے تدارک کیلئے مؤثر اور ٹھوس اقدامات ریاستی سطح پر اٹھائے جائیں اور اس حوالے سے سخت سزاؤں کیلئے قانون سازی کی جائے تاکہ معاشرے میں خواتین، بچیاں اور چھوٹے بچے جنسی درندوں کا شکار بننے سے بچ جائیں۔ اگر اب بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ماضی کی طرح اسے بھی چند ایک واقعات کی طرح بھلادیاگیا تو اس سے خاص کر خواتین خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس طرح کے شرمناک واقعات کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں جائیں تاکہ معاشرے میں خواتین کو ہر سطح پر تحفظ حاصل ہوسکے اور خواتین کو باور کرایاجاسکے کہ اگران کے ساتھ کسی بھی مقام پر ہراسگی کامعاملہ سامنے آتا ہے اس حوالے سے ان کی درخواست پر ہر صورت کارروائی ہوگی مگر متاثرہ خاتون کے نام کو صیغہ راز میں رکھاجائے گا کیونکہ بعض ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر وہ رپورٹ اس لئے نہیںہوتے کہ خواتین اور ان کے اہلخانہ اپنی عزت کی حرمت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لئے اس امر کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ حکومت حالیہ واقعہ کے بعد مزید اس طرح کے شرمناک واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے گی تاکہ خواتین کو مکمل تحفظ فراہم ہوسکے اور انہیں کسی جگہ اور مقام پر جانے اور ملازمت کرنے میںکوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔
شوزیراعظم عمران خان نے مینار پاکستان پر ہجوم کی جانب سے خاتون کو ہراساں کرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے خاتون سے بدتمیزی پر انسپکٹر جنرل پولیس سے رابطہ کر کے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔واضح رہے کہ 14 اگست کے روز300 سے زائد افراد پر مشتمل ایک ہجوم نے اس وقت خاتون پر حملہ کیا جب وہ اپنے یوٹیوب چینل کے لیے ویڈیو بنارہی تھیں۔سوشل میڈیا پر اس واقعے کی گردش کرتی مختلف ویڈیوز میں متاثرہ لڑکی کو مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔یہ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد لاہور پولیس نے متاثرہ لڑکی کی درخواست پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

منگل کے روز متاثرہ لڑکی نے لاہور کے تھانہ لاری اڈہ میں درخواست دی کہ وہ 14 اگست کو شام ساڑھے چھ بجے اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ گریٹر اقبال پارک میں یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنا رہی تھی کہ یکدم وہاں پر موجود تین چار سو سے زیادہ افراد کے ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا۔درخواست کے مطابق لڑکی اور ان کے ساتھیوں نے ہجوم سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے اور اسی دوران وہ گارڈ کی جانب سے جنگلے کا دروازہ کھولے جانے کے بعد اندر چلے گئے لیکن ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ لوگ جنگلے کو پھلانگ کر ان کی طرف آئے اور کھینچا تانی کی۔لڑکی نے درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ ہجوم میں موجود لوگ ان کو اٹھا کر ہوا میں اچھالتے رہے اور ان کے کپڑے بھی پھاڑ دئیے۔متاثرہ لڑکی نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ ان پر تشدد کیا گیا اور ان کا موبائل فون ،نقدی اور سونے کے ٹاپس بھی چھین لیے گئے۔

یہ انتہائی شرمناک واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں خواتین ، بچیوں سمیت چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز بھی زیادہ رپورٹ ہورہے ہیں اخلاقی طور پر لوگ اس حد تک گِرچکے ہیں کہ دن دہاڑے ہجوم کی صورت میںخاتون کو ہراساں کرکے اسے تشدد کانشانہ بنایاجاتا ہے جو ہمارے اخلاقی پستی کاواضح اظہار ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ صدا بلند ہورہی ہے کہ زیادتی جیسے خطرناک واقعات کے تدارک کیلئے مؤثر اور ٹھوس اقدامات ریاستی سطح پر اٹھائے جائیں اور اس حوالے سے سخت سزاؤں کیلئے قانون سازی کی جائے تاکہ معاشرے میں خواتین، بچیاں اور چھوٹے بچے جنسی درندوں کا شکار بننے سے بچ جائیں۔

اگر اب بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ماضی کی طرح اسے بھی چند ایک واقعات کی طرح بھلادیاگیا تو اس سے خاص کر خواتین خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس طرح کے شرمناک واقعات کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں جائیں تاکہ معاشرے میں خواتین کو ہر سطح پر تحفظ حاصل ہوسکے اور خواتین کو باور کرایاجاسکے کہ اگران کے ساتھ کسی بھی مقام پر ہراسگی کامعاملہ سامنے آتا ہے اس حوالے سے ان کی درخواست پر ہر صورت کارروائی ہوگی مگر متاثرہ خاتون کے نام کو صیغہ راز میں رکھاجائے گا کیونکہ بعض ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر وہ رپورٹ اس لئے نہیںہوتے کہ خواتین اور ان کے اہلخانہ اپنی عزت کی حرمت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لئے اس امر کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ حکومت حالیہ واقعہ کے بعد مزید اس طرح کے شرمناک واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے گی تاکہ خواتین کو مکمل تحفظ فراہم ہوسکے اور انہیں کسی جگہ اور مقام پر جانے اور ملازمت کرنے میںکوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔