طالبان نے نئی حکومت کے قیام کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ طالبان کے نائب امیر اور قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملاعبدالغنی برادر سمیت اہم سیاسی رہنما کابل پہنچ گئے ہیں۔اس حوالے سے ایک سینئر طالبان رہنماء وحید اللہ ہاشمی کا کہناہے کہ افغانستان میں اسلامی طرز حکومت اور شرعی قانون نافذ ہوگا،جمہوری طرزحکومت نہیں ہوگی۔
غیرملکی خبررساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں وحید اللہ ہاشمی نے واضح کیاکہ افغانستان میں جمہوری نظام حکومت نہیں ہوگا، حکومت سازی کے لئے طالبان قیادت افغانستان اور قطر میں کام کررہی ہے۔سابق افغان صدر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی نے بھی طالبان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
حشمت غنی نے افغانستان کے لیے امن کو انتہائی ضروری قرار دیا اور یہ انکشاف بھی کیا کہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود طالبان سے امن معاہدے پر راضی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان امن اور تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، طالبان امن اور تحفظ دیں، ہم ان کی مدد کریں گے۔اطلاعات کے مطابق حشمت غنی نے حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے بھائی خلیل الدین حقانی کے ہاتھ پر بیعت بھی کی ہے جس کی تصویریں وائرل ہورہی ہے۔
دوسری جانب افغانستان کے صوبہ پنجشیر میں جنگ کا خطرہ ٹل گیا اور سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے طالبان کی حمایت کا اعلان کردیا۔طالبان کی جانب سے دارالحکومت کابل میں کنٹرول کے بعد افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح سمیت کئی مخالفین وادی پنجشیر پہنچ گئے تھے۔اب تک ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے صوبہ پنجشیر میں طالبان کے خلاف سخت مزاحمت کا خطرہ تھا، سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد شاہ نے بھی جنگ کی تیاری شروع کردی تھی اور امریکا سے بھی مدد طلب کی تھی۔تاہم اب تازہ ترین رپورٹس کے مطابق احمد مسعود اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور انہوں نے طالبان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے جس میں امریکا کو مطلوب حقانی گروپ کے اہم ترین کمانڈر اور جلال الدین حقانی کے بھائی خلیل الرحمان حقانی نے کابل میں ایک اجلاس کے دوران کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ احمد مسعود نے فون پر طالبان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ان خبروں کی فوری طور پر آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔دوسری جانب اس سے قبل احمد مسعود کا کہنا تھاکہ طالبان سے جنگ کا کوئی ارادہ نہیں۔ان کا کہنا تھاکہ صرف سابق نائب صدر امراللہ صالح جنگ چاہتا تھا، اسے کہہ دیا گیا ہے کہ گھر پر رہیں یا کہیں اور چلے جائیں۔
بہرحال طالبان کی جانب سے افغانستان میںمختلف گروپس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور یہ مذاکراتی عمل بھی کامیاب ہوتادکھائی دے رہا ہے مگر طالبان کی حکومت کی تشکیل نو کا معاملہ اور عالمی دنیا کے ساتھ تعلقات میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوسکی ہے بلکہ امریکہ اور آئی ایم ایف کی جانب سے فنڈز بھی مکمل بند کردیئے گئے ہیں۔ یہ چیلنجز طالبان کو عالمی دنیا کے حوالے سے درپیش ہیں۔
کیونکہ عالمی دنیا کی نظریں اس وقت طالبان کے طرز حکمرانی پر لگی ہوئی ہیں کہ طالبان کس طرح کی حکومت تشکیل دیں گے اور انتخابات کی شفافیت کس حد تک ہوگی اور پارلیمانی نظام میں اہم اصلاحات کو یقینی بنائی جائے گی جو پوری دنیا کیلئے قابل قبول ہو کیونکہ اب تک دنیا سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ انسانی حقوق، خواتین کے معاملات پر خدشات موجود ہیں ۔اب طالبان پوری دنیا کے ساتھ تعلقات کو ماضی کی نسبت کیسے بدل سکتے ہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا اگر اندرون خانہ طالبان اپنے مخالفین کے ساتھ ملکر بہتر قانون سازی کے ذریعے قابل قبول قوانین تشکیل دیں گے تو یقینا دنیا کے بیشترممالک افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرینگے جبکہ افغانستان کو دوسرا بڑا فائدہ خانہ جنگی سے بچ جانے کا ہوگا ۔