معاشرے میں صحافیوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے اسے دوحصوںمیں تقسیم کرکے موازنہ کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ایک طبقہ جنہوں نے اظہار رائے کی آزادی کیلئے طویل جدوجہد کی ،ہرقسم کی تکالیف برداشت کیں اور حقائق کی بنیاد پر ان عظیم صحافیوں نے عوام کومعلومات فراہم کیں جس کا بنیادی مقصد شعوروآگاہی کے ساتھ حکمرانوں کے سامنے ملک میں ہونے والی صورتحال کا اصل نقشہ پیش کیاجانا تھا تاکہ وہ صحافیوں کی نشاندہی پر اقدامات اٹھاتے ہوئے بہتر انداز میں ملکی امور کو چلائیں ۔داخلی وخارجی معاملات، معاشی مسائل سمیت دیگر چیلنجز کے اصل پہلوؤں کو حقیقی صحافیوں نے ہمیشہ سامنے لایا تاکہ حکمران حالات حاضرہ کے مطابق وسیع ترملکی مفاد میں فیصلہ سمیت بہتر قانون سازی کریں۔دوسرا صحافتی طبقہ وہ ہے جو ہمیشہ اپنے گروہی وذاتی مفادات کیلئے کام کرتے ہیں۔
جو حقائق کو مسخ کرتے ہوئے جی حضوری کی پالیسی پر گامزن ہوکر صحافت کو بدنام کرتے ہیں مگر ملک وسرزمین ہمیشہ قائم ودائم رہتے ہیں جبکہ اقتدار وقتی طور پر سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں آتا ہے اس لئے انہیں اس حوالے سے غور کرنا چاہئے کہ ہماری گورننس کس طرح ہے ۔ہمارے یہاں عدل وانصاف کے معاملات کس طرح چل رہے ہیں، ادارے اپنے حدود میں رہ کر کام کررہے ہیں یا اختیارات سے تجاوزکرتے ہوئے بعض معاملات میں مداخلت کررہے ہیں جو پارلیمان کے تقدس ،قانون وآئین کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب سیاسی جماعتیں خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہوئے محض اپنے اقتدار کی خاطر آئین وقانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں اور حقائق کو کسی صورت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے اور ان کا حملہ اظہار رائے کی آزادی پر ہوتا ہے جہاں وہ پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پر دباؤ ڈالنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیںجو کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔
مگر حقیقی صحافی اس پیشہ کی حرمت کو برقرار رکھنے کیلئے آج بھی جدوجہد کررہے ہیں جس طرح ماضی میں بھی کرتے آئے ہیں یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان میں صحافیوں کی بڑی تعداد اس سے متاثر ہوئی ہے اور متعدد جام شہادت بھی نوش کرچکے ہیں۔ گزشتہ روز بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں یوم شہدا ئے صحافت منایا گیا ۔ اس موقع پر مقررین نے میڈیا ڈویلپمنٹ بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ آزادی صحافت پر کوئی قدغن قبول نہیں کرینگے کیونکہ آزاد صحافت میں ہی جمہوریت، عدلیہ اور مقننہ کی بقاء ہے۔ شہید صحافیوں کی یاد میں شہداء صحافت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صحافتی تنظیموں کے نمائندوں ،انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان ، وکلاء تنظیموں کے رہنماؤں سمیت سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اظہار رائے کی آزادی پر کوئی قدغن قبول نہیں کی جائے گی۔
آزادی صحافت کیلئے قربانیاں دینے والوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ،شہید صحافیوں کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی ۔ مقررین کا کہناتھا کہ بلوچستان میں 44سے زائد صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران شہیدہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میڈیاڈویلپمنٹ اتھارٹی بل ‘‘کوملک کی اکثریتی صحافتی تنظیموںنے مسترد کیا ہے صحافت کی آزادی ملک کے ہرشہری کاحق ہے ہمیں اس کیلئے مل کرجدوجہد کرناہوگی۔بہرحال موجودہ حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آزادی صحافت اور اظہاررائے کی آزادی پر قدغن لگانے کیلئے ایسا قدم نہ اٹھائے جس سے حقیقی معلومات عوام تک نہ پہنچ سکیں ۔اور یہ بات ہمیشہ موجودہ وزیراعظم عمران خان کہتے رہے ہیں کہ جمہوریت اور ملک میں تبدیلی لانے میں صحافیوں نے تاریخی کردار ادا کیا ہے اور انہوں نے ساتھ ہی اس عہد کا اظہار کیاتھاکہ وہ صحافت پر کبھی قدغن لگانے نہیں دینگے لہٰذا جس آرڈیننس کو لانے کی تیاری کی جارہی ہے اس پر سوچ وبچار کیاجائے کیونکہ اس سے ملکی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا اور دنیا بھر میں ایک غلط تاثر میڈیا کے متعلق یہاں سے جائے گا۔امید ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں چوتھے ستون کا کردار ادا کرنے والے شعبہ کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دے گی ۔