|

وقتِ اشاعت :   August 30 – 2021

کراچی: پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہم نے قسم کھائی ہے کہ ہم یزید کے ہاتھوں بیعت نہیں کریں گے۔ لوگوں اٹھوں اور انقلاب لاو۔ انقلاب کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ، اب سے ملک میں جلسے نہیں ہوں گے روڈ کاروان چلے گے اور اسلام آباد کی طرف مارچ ہو گا۔ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نے جو عہد و پیما کیا ہے اپنے ساتھ اور قوم کے ساتھ اس پر ہم پورا اتریں گے آج ہم ایک مرتبہ کہتے ہیں کہ یہ حکومت ناجائز ہے۔ جو جبر کے طبقے اس طرح کے حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے ہیں ہم ان کا بھی مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کشمیر کو بیچ دیا ہے۔ گلگت بلتستان کو کوئی مستقبل نہں۔ پاکستانیوں اب تو ذرا سوچ لو ہم نے قربانی دے کر پاکستان کو بچانا ہے۔ قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا گیا آج وہی پاکستان اپنی بقاء￿ کے لیے آپ سے قربانی مانگ رہا ہے۔ کہ آپ نے میدان میں نکلنا ہے یا نہیں۔ اگر ہماری فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے تو وہ آئین سے روح گردانیکرتی ہے اور گر ہم اس طرح کی جمہوریت کو تسلیم کرتے ہیں تو ہم اپنے پارلیمنٹ کے حلف سے انحراف کرتے ہیں۔ اور سب کو اپنے حلف پر قائم رہنا چاہئے۔ اس ملک کو قانون کی حکمرانی اور اس کے نیچے ملک کے نظام کو چلانا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو ساڑھے پانچ فیصد اور اگلے سال ساڑھے چھ فیصد دیا گیا لیکن اس نااہل حکومت نے صفر سے بھی نیچے پہنچا دیا۔ آج ہماری معیشت جمود کا شکار ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو مزار قائد سے متصل باغ جناح گراونڈ میں استحکام پاکستان و حقوق سندھ کے عنوان سے منعقدہ جلسے عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ تین سال نے موجودہ حکومت نے ایک غیر محفوظ ریاست اور پاکستانی قوم کو غیر محفوظ قوم بنا دیا۔ قومیں آگے کی طرف بڑھتی ہیں۔

آج دنیا آگے بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان پیچھے کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال پر ہم خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔ ہم نے 22 کروڑ پاکستانی عوام کے شانہ بشانہ رہنے کی قسم کھائی ہے اور انہیں دنیا کے ترقی یافتہ قوم بنانے کی قسم کھائی ہے۔ اس پر تبصرے کیے جا رہے تھے کہ پی ڈی ایم خاموش ہو گیا ہے ، آج عوام نے ثابت کر دیا کہ پی ڈی ایم زندہ ہے ، اور عوام بھی زندہ ہے ، ہمیں اپنے رواں دواں سفر کو رواں دواں رکھنا ہے۔ کئی سو گنا مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ چینی ناپید ہو گئی ہے ، گھی نہیں مل رہا ، گندم ناپید ہو گئی ہے۔ دواوں کی قیمت کہاں پہنچ گئی ہے۔ پاکستان صرف اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ صرف چند لوگ یہاں عیاشی کریں گے اور چند لوگ حکومت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مایوسی کی طرف نہیں جانا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تھکے نہیں ہیں۔ اب اشارے سے بات آگے بڑھ گئی ہے۔ اب چڑھائی کا دور ہے ، اپنے جذبوںکو بلند رکھیں ، اپنی جرات کو قائم رکھیں۔ بزدلی مسلمان کی نہیں کافر کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ کی معیشت کمزور ہے تو آپ کبھی بھی کامیاب خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے۔ آپ اپنے ملک کے لیے دوست پیدا نہیں کر سکیں گے۔ چین اس خطے کی سپر طاقت ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ویٹو پاور ہے۔ لیکن ہم نے چین سے کہا کہ پاکستان کے راستے سے آپ دنیا کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے میاں نواز شریف صاحب نے سی پیک کا افتتاح کیا کام شروع ہوا۔ چین کیمقابلے میں عالمی قوتوں کو برداشت نہیں ہوا۔ جب پاکستان ترقی کے راستے پر جانے لگا چین نے ترقی کے لیے پاکستان کا راستہ اختیار کیا۔

جب ہم نے اپنے معاشی ترقی کی بنیاد رکھی۔ ہم نے چین کی 70 سالہ دوستی معاشی دوستی میں تبدیل کیا۔ عمران خان نے امریکی اور یہودی ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کو دوستوں سے محروم کیا معیشت تباہ کی اور ہمیں عالمی تنہائی کا شکا رکر دیا۔ عالمی بینکوں کی امداد کی لالچ میں ہم نے چین کی دوستی اور معاشی منصوبوں کو مسترد کیا۔ لیکن عالمی طاقتوں اور مالیاتی اداروں نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم افغانستان کے خلاف اڈے نہیں دیں گے۔ کراچی اور اسلام آباد کے ہوٹل ان کے حوالے کر دیئے۔ یہ کس بنیاد پر۔ ان کے لیے کوئی ویکسین شرط نہیں ہے۔ جو افغانستان میں 20 سالہ انسانیت کا خون کرتے رہے اور انسانیت کو پامال کرتے رہے ، جس کی انگلیوں سے انسانیت کا خون ٹپک رہا ہوں ، اسے قیادت کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم نے کس کے مفادات کے لیے اپنے جغرافیہ کو تبدیل کر دیا ہے۔

ہم نے کشمیر بیچ دیا ہے۔ اس مودی کو جو مودی ہمارا فون سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو ہمارا فون اٹھانے کو تیار نہیںہے۔ اور جو بقیہ کشمیر رہ گیا ہے تو میں آزاد کشمیر کے لوگوں کو ریفنرمڈم کی اجازت دوں گا وہ چاہیں تو آزاد زندگی گزاریں یا پاکستان کے ساتھ رہیں۔ تمہیں تو پاکستانی کی ریاستی پالیسی کا پتہ نہیں۔ سلامتی کونسل کی قرار دادیں کیا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے شخص کے ہاتھ میں کشمیر دینا کشمیر بیچنے کے مترادف ہے۔ گلگت اور پاکستان کا ووٹ چوری کرکے پی ٹی آئی کو دیا گیا ، کشمیر کا ووٹ بھی چوری کرکے پی ٹی آئی کو دیا گیا ، یہ لوگ نااہل ہیں حکومت کا حق نہیں رکھتے۔ آج گلگت بلتستان کا مستقبل مخدوش ہے۔ ہم نے فاٹا کا انضمام کیا ، فاٹا کے قبائل رل گئے۔ ڈیڑھ دے دو کروڑ کی آبادی مردم شماری میں 50 لاکھ لکھی گئی ، آج ہر قبائلی کا گھر تباہ ہو گیا ہے۔ ہم نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ہر سال تمہیں 100 ارب روپے دیں گے اور یہ دس سال تک دیتے رہیں گے۔ میں محسودوں کے مرکزی شہروں میں گیا ہوں۔ مجھے دوستوں نے کہا کہ کوئی گھر یہاں ایسا نہیں جہاں ہم آپ کو ٹھہرا سکیں اور بالآخر ایک اسکول میں میرے لیے جگہ بنائی گئی۔

قوم کس کرب سے گزری ہے ، آنے والے مستقبل کا کوئی علم نہیںہے۔ مستقبل میں پڑوس کے ممالک کے ساتھ ہماری نوعیت کیا ہو گی کچھ پتہ نہیں ، اس طرح کا جغرافیہ ترتیب دیا جا رہے ، جس کا کچھ پتہ نہیں ، یہ کس کی سیاست اور کس کا فلسفہ ہے آپ کو علم ہونا چاہئے۔ ہمیں بتایا کہ ہم آپریشن کر رہے ہیں دہشت گردوں کا خاتمہ کر رہے ہیں ، ہم نے کہا کہ آْریشن نہیں چاہئے ہمیں امن چاہئے۔ کس بنیاد پر تم نے قوم کے بچوں کو ہجرت پر مجبور کیا۔ تم نے ماوں بہنوں کو گھر وں سے نکال کر دربدر کرکے بھیگ مانگنے پرمجبور کیا۔ پھر تم نے اس ماحول میں ان این جی اوز کو بھیجا جو فحاشی پھیلانے میں جتی رہی۔ افغانستان میں امارت اسلامیہ کی طرف سے وسیع البنیاد حکومت کی پیشکش ہوئی ، عام معافی کا اعلان ہوا ، انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو معاف کر دیا اور انہوں نے سب کو کہا کہ آو ہمارے ساتھ حکومت میں شامل ہو جاو ، امارت اسلامیہ نے جس فراغ دلی کا مظاہرہ کیا ہے آپ کو بھی اسے قبول کر لینا چاہئے۔ میں مغربی ممالک سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ تم نے معاہدہ کیا ہے اس کی پاسدادری کروں اور افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے لیے شرطیں نہ لگایا کرو دل سے تسلیم کر لو کے تم ہار چکے ہو۔ اگر امریکا اور نیٹو افغانستان کی شکست خوردہ قوتیں ہیں تو اخلاقی طور پر وہ جرات نہیں کرتا کہ وہ شرطیں لگائیں۔ افغانستان میں سیاسی استحکام میں پاکستان کا مفاد ہے۔

ہم چاہتے ہیںکہ پاکستان کے چین اور ایران کے ساتھ تعلقات ہوں۔ یہ صرف یہ پالیسی بنا سکتے ہیں کہ ہم نے آج کیا عیاشی کرنی ہے۔ تم سے تو کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ابھی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا اس میں بھارت کو شریک کیا گیا لیکن پاکستان کے مندوب کو شریک نہیں کیا گیا۔ ہماری وزارت خارجہ بیان دیتی تھی کہ 57 ممالک کی ہمیں حمایت حاصل ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ کل ارکان ہی 47 ہیں اور پھر قرار داد پیش کرنے کے لیے 16 ممالک کی حمایت ضروری تھی ہم وہ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ پاکستانیوں اب تو ذرا سوچ لو ہم نے قربانی دے کر پاکستان کو بچانا ہے۔ قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا گیا آج وہی پاکستان اپنی بقاء￿ کے لیے آپ سے قربانی مانگ رہا ہے۔ کہ آپ نے میدان میں نکلنا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو کرپٹ لوگوں سے آواز کرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا ، مالم جبہ کا معاملہ کہاں دفن کر دیا۔ پشاور کی بی آر ٹی ، گندم کا اسکینڈل ، چینی اسکینڈل کیوں دفن کیا جا رہا ہے۔ نیب جانبدار ادارہ ہے اسے ختم ہونا چاہئے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہمیں انتخابی اصلاحات دیں گے۔ دھاندلی سے آنے والے ہمیں کیا انتخابی اصلاحات دیں گے۔ ووٹ چوری کرنے والی مشین ہمیں کیا انتخابی اصلاحات دے گی۔ ہم تمہارے انتخابات اصلاحات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ تم نے ہمیں مذاق بنا لیا ہے۔ ہم نوجوانوں کو کب تک قابو میں رکھیں گے۔ نہ پاکستان بدلہ نہ خوش حالی آئی۔

اگر پاکستان معیشت اور جمہوریت کے لیے بنا تو وہ نہیں ہے۔ ہم نے اس کی تعبیر تلاش کرنی ہے۔ ہماری جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی تعبیر کو سامنے لائیں گے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ فیصلہ کریں آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے کیسا پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں، اگر ہم کوشش کریں تو پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ ہم اکیس کروڑ لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے ، یہ پورے بائیس کروڑ لوگوں کا پاکستان ہے ، یہ پونے بائیس کروڑ لوگوں کا ملک نہیں ہے کہ لوگ خود کشیاں کریں اور کچھ لوگ وسائل پر قابض ہوں۔ یہ میں سنتا ہوں کہ یہ وطن تمہارا ہے ہم اکیس کروڑ ہیں خواہ مخواہ اس میں۔ یہ نتیجہ ہے عمران خان کو ہمارے سروں پر بٹھانے کا۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کا ووٹ چوری کرکے عمران خان کے باکس میں نہیں ڈالا گیا۔ پوری ریاستی مشینوں کا استعمال کرکے عمران خان کو نہیں جتوایا گیا۔ کس طرح اس ملک کے وزیر اعظم اور اس ناچیز کس طرح نکالا گیا ، جو گیس لے کر آیا ، جس نے لوڈ شیڈنگ ختم کی۔ جس نے نیو کلیئر پاور پلانٹ لگائے ، جو کراچی میں گرین لائن بنا رہا ہے ، جس نے پینے کے صاف پانی کے منصوبے شروع کیے ، جس نے کراچی میں دہشت گردی ختم کرکے کراچی کی رونقوں کو بحال کیا۔ نے معاشی ترقی کی رفتار کو 5,8 تک پہنچائی۔ جس نے ملک بھر میں موٹروے کے جال بچھائے۔ ملک میں سی پیک کے منصوبے بنوائے۔ پاکستان کی کرنسی اس مضبوط تھی ، ڈالر 104 کا تھا ، اب ڈالر 165 کا ہے۔ لوگوں کو روزگار مل رہا تھا ، اس گورنمنٹ نے لوگوں کو بے روزگار کیا۔ مہنگائی کی شرح چالیس سال کی کم ترین سطح پر تھی۔

آج کے حالات میں خاموشی جرم ہیں۔ ہم سب اپنے رب کے حضور جواب دہ ہیں ، جب پاکستان پر کڑا وقت آیا تو ہم چپ کیوں رہے ، جب پاکستان کے نظام کو چند لوگوں نے یرغمال بنایا ہم خاموش کیوں رہیں۔ انصاف پسند ججوں کے خلاف منصوبے بنتے رہے ہم خاموش کیوں رہیں ، جعلی مقدمات میں بے گناہوں کو سزائیں دلوائی گئیں ہم خاموش کیوں رہیں ، آپ کا ووٹ چوری ہو گیا ہم خاموش کیوں رہیں ، آر ٹی ایس بند کروایا گیا ، ہم خاموش کیوں رہیں ، ریاست میں ریاست بنائی گئی ہم خاموش کیوں رہیں ، غریب کی پنجی لٹ گئی ، مہنگائی غربت آسمان سے باتیں کرتی رہی ہم خاموش کیوں رہیں ، میری باتیں ان کو اچھی نہیں لگتی کیونکہ میں سچ بولتا ہوں۔ اس لیے میری آواز ٹی وی پر بند کر دی ہے۔ یہ خوش فہمی میں ہیں۔ میری بات پاکستان کے عوام کے گھر گھر میں پہنچ رہی ہے۔ آپ کو فیصلہ کرنا ہے۔ آپ حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں یا خاموش رہنے یا ڈرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آپ آواز اٹھانا چاہتے ہیں یا ظلم سہنے والوں کے ساتھ ہیں۔ اللہ کو آپ کیا جواب دیں گے کہ آپ نے حق کے لیے اپنی آواز بلند کیوں نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کا دل ہے۔

ہر قومیت کے لوگ یہاں رہائش پزیر ہیں۔ گذشتہ تین سالوں سے اہل پاکستان اور کراچی والوں پر کیا گزری۔ ایک اچھے بھلے پاکستان کو اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے 2018 میں دھاندلی کی شکل میں ایک سازش رچائی گئی۔ جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ یہ اسی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ سازش نہ ہوتی تو پاکستان آج ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہوتا۔ آج آپ اپنے بچوں کے لیے پریشان نہ ہوتے۔ سماجی اور معاشی انصاف ہوتا۔ عزت اور خود مختاری ہوتی اور آپ کو آتے دال اور چینی کے لیے قطاروں میں نہ لگنا پڑتا۔ میرے کراچی کے دوستوں یہ اس لیے ہوا کہ آپ کے منتخب وزیر اعظم کو نکالنے کے لیے ڈراما رچایا گیا۔ عدالتوں سے فیصلے لیے گئے اور دلوائے گئے۔ نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کو خاص کر مجھے اور مریم نواز کو 150 سے زیادہ پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ شہباز شریف ، شاہد خاقان عباسی اور دیگر نے بھی نیب عدالتوں پر دباو ڈال کر 10 سال کی ناجائز سزا دوالوائیگئی اور ہم سب کو قید و بند میں ڈال دیا گیا۔ ہمارے بچوں تک کو ہماورے پارٹی کے کارکنوں کو بھی قید میں ڈال دیا گیا۔ جسٹس شوکت صدیقی کو کہا گیا کہ نوازش ریف اور مریم نوازکی سزا برقرار رکھو۔ کیا آپ یہ نہیں جاننا چاہتے کہ یہ الفاظ کس نے کہے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں ، جو ووٹ چوری کرکے عمران خان کو لے کر آئے اور بائیس کروڑ عوام کو اس کو مسلط کر دیا ، یہ وہی لوگ ہیں۔ یہ سب آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔ اور آج بھی ہو رہا ہے اور ہم سب خاموش ہیں۔ پھر ہم رونا روتے ہیںکہ ملک ترقی کیوں نہیں کرتا۔ ملک پستی کی طرف کیوں جا رہا ہے اور ملک دھنستا کیوں جا رہا ہے۔ آٹا ، دال چینی کیوں مہنگیہو رہی ہے ، دوائیاں کیوں مہنگی ہو رہی ہیں۔ بجلی کے بلوں نے تو کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار کیوں ہو گیا ہے۔ کہاں گئی سبز پرچم کی عزت۔ دنیا کوئی لیڈر فون نہیں کرتا اور دوسرا سنتا نہیں۔ معاشرے میں انصاف نام کی کوئی عزت نہیں ہے۔ غریب دھکے کھاتا ہے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام میں اکیس کروڑ غریب ہیں۔ صرف چند پاکستان کے وسائل پر قابض ہیں اور زمینوں پر قبض کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے خزانوں سے مراعات لیتے ہیں اور پلاٹ اور پینشن لیتے ہیں۔ لیکن اکیس کروڑ عوام کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اب تو غریب سے نوالہ بھی چھنتا جا رہا ہے۔ علاج کی سہولت اس کے پاس نہیں۔ دوسری طرف مراعاتی یافتہ طبقوں کے لیے خزانے کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں۔ یہ چند لاکھ لوگ آپ کے ملک کے وسائل پر قابض ہیں۔

مجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان شاید انہی لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ میں سنتا ہوں کہ یہ وطن تمہارا ہے ہم اکیس کروڑ ہیں خواہ مخواہ اس میں۔ یہ نتیجہ ہے عمران خان کو ہمارے سروں پر بٹھانے کا۔دریں اثناء مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر میاںمحمد شہباز شریف نے بلوچستان کے مقررین نے بلوچستان کی جن محرومیوں کا ذکر کیاہے ، پی ڈی ایم کی قیادت ان کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کر تی ہے۔ نواز شریف اور ہماری جماعت ان کے حقوق دلانے کے لیے بھرپور تعاون کرے گی۔ مارچ 2019 میں سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان کراچی آئے اور سندھ کی دھرتی میں 162 ارب روپے کا سندھ کراچی ڈویلپمنٹ پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ کراچی میں 2020 میں شدید بارشیں ہوئیں، اس کے بعد عمران خان نے 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ میرے بھائی بلاول بھٹو زرداری نے بتایا تھا کہ اس 1100 ارب روپے سندھ کا بڑا حصہ ہے۔ آج تک عمران نیازی نے سوائے چند ٹکوں کے کراچی کی محرومیوں کو خوشی میں بدلنے کے لیے رقوم فراہم نہیں کیں۔ عوام کو صرف جھوٹے وعدوں پر ٹرخایا جا رہا ہے۔ 2013 اور 2018 ء کے درمیان اس شہر میں بھتہ خوری ، بدامنی عروج پر تھی اور خوف کی لہر تھی اور لوگوں کا رخ پنجاب کی طرف ہوا۔ یہاں کاروباری لوگوں نے اپنے خاندان دبئی منتقل کر لئے۔

اسی دوران وزیر اعظم نواز شریف نے اداروں اور حکومت کے ساتھ مل کر کاروباری حضرات کے مشورے پر ایک مضبوط پلان بنایا اور امن و امان کو اللہ تعالی کے فضل سے واپس لوٹایا اور آج کراچی سے بھتہ خوری کا خاتمہ ہو گیا ہے ، آج بوری بند لاشیں نہیں ملتی ہیں۔ ہمارے شروع کے دورے حکومت میں 20 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اور لوگ ذہنی طور پر مفلوج ہو گئے تھے ، صنعتیں بند ہو چکی تھیں ، لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے تھے۔ پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر تھی۔ جب ہمارے حکومت آئی تو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اپنے وسائل سے 11 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی اور کراچی کی روشنیاں بحال کی گئیں۔ پاکستان میں دوبارہ صنعتیں چل رہی ہیں۔ بجلی کی کمی کی وجہ سے جو روزگار ختم ہوا تھا ، وہ دوبارہ شروع ہوا ہے۔ عمران نیازی دن رات دروغ گوئی کرتا ہے ، جو اپنی تقریروں میں کھڑے ہو کر کہتا تھا کہ ڈالر میں ایک روپے کا اضافہ ہو یا بجلی کی قیمت بڑھ جائے تو سمجھ لو کہ وزیر اعظم کرپٹ اور چور ہے۔ کیا آج چینی سستی ہے ، کیا آٹا سستا ہوا۔ بجلی اور گیس سستی ہوئی۔ مہنگائی اس وقت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ عمران خان ساڑھے تین سو کینال کے گھر میں رہ کر ریاست مدینہ کی بات کرنا اس سے بڑی کوئی کوتاہی نہیں ہو سکتی ہے۔ کیا خلفائے راشدین کی زندگی میں ایسا نظر آتا ہے۔ پاکستان غریب ایک وقت کی روٹی کو ترستا ہے ، ایک غریب پر کیا گزر رہی ہے ، محل میں رہنے والے کو کیسے پتہ ہو گا۔

اگر اللہ تعالی نے ہمیں موقع دیا تو صدق دل سے یہ کہتا ہوں کہ لوگوں کو روزگار ملے گا ، علاج ملے گا اور مہنگائی کم ہو گی۔ پنجاب میں (ن) لیگ کے پاس اقتدار تھا ، وہاں پر علاج کی سہولت مفت تھی۔ تعلیم سہولیات میسر تھیں۔ یتیموں کے لیے وظائف مقرر کیے گئے تھے۔ آج وہ پاکستان کے معمار بن گئے ہیں۔ پہلی میٹرو بس کراچی کا حق تھا ہم نے لاہور میں ضرور بنائی ہے لیکن کراچی کا پہلا حق تھا۔ کراچی پورے پاکستان کی ماں کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی پورے پاکستان سے آنے والوں کو جگہ دیتا ہے۔ کراچی نے سب کے لیے ماں کا کردار ادا کیا۔ ہم نے 72 سال سے اس شہر کے ساتھ سوتیلی ماں کے جیسا سلوک کیا ہے۔ ہم سب مل کر پاکستان کو ایک ویلفیئر اسٹیٹ بنائیں گے۔ اقوام عالم اور اس دنیا میں مقام دلوائیں گے۔ نوکریاں دینے کا اعلان کرنے والا نوکریاں بھی چھین رہا ہے اور گھر بھی چھین رہا ہے۔ اب ان کو ہٹانے کے لیے ہمیں عوام کو لے کر اسلام آباد جانا ہو گا۔ مولانا قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے ہم سب کی قیادت کریں گے اور ہم سب اس حکومت کی سیاست کو دفن کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کے ساتھ اسلام آباد جائیں گے۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے سینئر نائب صدر نے کہا کہ ملک بھر سے لوگ محنت مزدوری کے لیے کراچی آئے ہیں اور کراچی کی ترقی میں مزدوری کرتے ہوئے کراچی کی ترقی میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ہمیں کراچی کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کا حق بنتا ہے۔ یہ اقتصادی لحاظ سے پاکستان کا دل ہے۔

اگر یہ نہیں دھڑکے گا تو پاکستان خوش حال نہیں ہو گا۔ میں کورنگی واقعہ سمیت مواچھ گوٹھ واقعہ کی مذمت کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو کیفردار تک پہنچایا جائے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور پی ڈی ایم کے ترجمان شاہ اویس نورانی نے کہاکہ 30 سال تک کراچی میں حکومت کرنے والوں نے بوری بند لاشوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ لسانی تعصبات کو ہوا دی گئی اور انہیں کے درمیان تصادم کرایا گیا۔ آئندہ ملک جنہیں بھی ملے وہ کراچی کے زمینی حقائق دیکھ کر کراچی کے مسائل حل کریں۔ ہم اس ملک اور شہر کے اصل والی اور وارث ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے اپنے خون سے اس ملک کی آبیاری کی ہے۔ تمہارے باپ دادا کو تو کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ نوکریوں پر کوٹے پر لوگوں کو بھرتی کیا گیا۔ 2013 سے اب تک کراچی کو ایک میگا پروجیکٹ دیا گیا ہے ، جو مکمل نہیں کیا جا سکا۔

بے شرموں کا ٹولہ وفاق میں بیٹھا ہے ، وہی عالم سندھ میں بھی ہے۔ جھاڑو اوپر پھرے گی تو یہاں بھی پھرے گی۔ اس تحریک کو آزادی مارچ کی طرف پھر دھکیلنا ہو گا۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے جہازوں کے لیے نہیں بلکہ چرس کے لیے اڈے مانگے تھے۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کامیاب جلسے پر منتظمین کومبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اس نے عوام سے جو وعدے کیے ، وہ پورے نہیں کیے۔ تاہم ایک وعدہ ضرور پورا کیا ہے کہ تبدیلی لانے کا جو مہنگائی کی صورت میں واقعی آئی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین پر غلط مقدمات بنائے گئے۔ ان کے پاس بخشہ ہوا اقتدار ہے ، جس کے تین سال پورے ہوئے۔ عوام ان کے ستائے ہوئے ہیں۔ اس وقت عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا گلہ صرف حکمرانوں سے نہیں ، ان سے بھی ہے ، جو ان کو لائے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں فرقہ پرستی کی جس طرح سرکاری سرپرستی ہوئی ہے ، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔