افغانستان میں امریکی اوراتحادی افواج کی انخلاء کے بعد اس خدشہ کا اظہار پہلے ہی کیاجارہاتھا کہ افغانستان میں موجود دیگر گروپس متحرک ہوجائینگے اور ایک نئی جنگ چھڑجائے گی۔ طالبان کا افغانستان پر کنٹرول کے بعد اب تک صورتحال مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ مستقبل میں طالبان کس طرح سے اسٹیک ہولڈرز کے ذریعے افغانستان میں حکومت سازی کریں گے اور اعتماد کی فضاکس حد بحال ہوکر آگے بڑھے گی۔
ایک طرف سیاسی قیادت تو دوسری جانب شدت پسنددیگر گروپس بھی خود کو بطور اسٹیک ہولڈرز منوانے کیلئے افغانستان میں موجود ہیں اورانہی گروپس کی جانب سے جنگ کا خطرہ موجود ہے۔ چونکہ دیگر افغان سیاسی قیادت کے ساتھ طالبان نے بات چیت کے متعلق اپنا مؤقف واضح کیا تھا اور ایک 12رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی تھی مگر معاملات کو اس طرح آسانی کے ساتھ لیکر چلنامشکل دکھائی دے رہا تھا اور اب اس کے آثار سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں کابل ائیرپورٹ پر حملہ کیاگیا۔کابل ائیرپورٹ پر ہونے والے یکے بعد دیگرے 2 دھماکوں میں ہلاک افراد کی تعداد 170 ہوگئی ہے جبکہ دھماکوں میں 200سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں میں 13امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔افغان حکام کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، زخمیوں کو طبی امداد کے لیے مختلف اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
کابل ائیر پورٹ دھماکوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش خراسان نے قبول کرلی ہے۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائیگا۔امریکی صدرجو بائیڈن نے کہا کہ داعش سے کابل حملے کا بدلہ لیں گے، داعش اور طالبان کے درمیان گٹھ جوڑ کے شواہد نہیں ملے۔دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز کابل ائیرپورٹ پر حملہ دو نہیں ایک خودکش بمبار نے کیا، ابھی اس بات کا یقین نہیں کہ ائیرپورٹ کے قریب دوسرا دھماکا بھی ہوا۔واضح رہے کہ امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے جمعرات کو ہی دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر اپنے شہریوں کو کابل ائیرپورٹ کے قریب جانے سے منع کیا تھا۔
دوسری جانب کابل ائیرپورٹ پر خودکش دھماکے کے بعد امریکا نے ایک بار پھر افغانستان پر فضائی حملہ کر کے ائیرپورٹ حملے کے منصوبہ ساز کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان کا کہنا ہے فورسز نے افغان صوبے ننگرہار میں داعش جنگجوؤں کے ٹھکانے پر ڈرون حملہ کیا، حملے میں داعش خراسان سے تعلق رکھنے والا کابل ائیرپورٹ حملے کا منصوبہ ساز مارا گیا، حملے میں کسی عام شہری کا جانی نقصان نہیں ہوا۔امریکا کے صدر جوبائیڈن نے کابل ائیر پورٹ پر خودکش حملے کا ذمہ دار داعش خراسان کو قرار دیتے ہوئے اس کی قیادت پر حملوں کا حکم دیا تھااور امریکہ کی جانب سے ڈرون حملہ کیا گیا۔اب اس حملے کے بعد یقینا حالات مزید کشیدگی کی طرف جائینگے اور جنگی ماحول پیدا ہوگا۔ اس تمام تر صورتحال کا اول روز سے شکوہ امریکہ سے کیاجارہاتھا کہ پہلے تو امریکہ نے افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر دوحا امن معاہدہ کیا۔
یہاں تک کہ افغان حکومت کو بھی اس میں شامل نہیں کیاجبکہ اشرف غنی کی جانب سے بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیاگیا کیونکہ اس سے قبل امریکہ پہلے بھی طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتا تھا مگر اس وقت کے صدر حامد کرزئی نے افغان حکومت کی شرکت کویقینی بنانے کی شرط رکھی تھی اور بغیر افغان حکومت کے مذاکرات کے کسی معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا مگر اشرف غنی نے جس لاپرواہی کے ساتھ نہ صرف حکومت چلائی بلکہ معاہدے کے دوران بھی عدم دلچسپی سے یہ ظاہر کیا کہ انہیں ملک سے باہر جانا تھا مگر اس کے منفی اثرات جو افغانستان پر مستقبل میں پڑنے والے تھے اس کی پرواہ بالکل بھی نہیں کی۔ البتہ اب یہ افغانستان میں موجود طالبان ودیگر قیادت پر منحصر ہے کہ حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک جامع حکمت عملی مرتب کریں تاکہ افغانستان میں دہشت گردی جیسے واقعات رونما نہ ہوں اور نہ ہی ڈرون حملوں کا ایک بار پھر سلسلہ شروع ہوجائے جوکہ انسانی بحران کا سبب تو بنے گا مگر خطے سمیت عالمی امن کیلئے بڑا چیلنج بھی بنے گا۔