تربت: لاپتہ افراد سے یکجہتی کے عالمی دن پر ایچ آر سی پی اسپیشل ٹاسک فورس کے زیراہتمام پروگرام منعقد کیا گیا جس کے پہلے حصے میں اس دن کی مناسبت سے شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور دوسرے حصے میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا گیا، پروگرام کے پہلے حصہ میں گفتگو کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے ریجنل کوارڈی نیٹر پروفیسر غنی پرواز نے کہا کہ جن ریاستوں میں بنیادی انسانی حقوق سلب ہوں وہاں جمہوری روایات کے تحت حقوق مانگنا جرم بنتا ہے اور اس کی سزا جبری گمشدگی تک پہنچ سکتی ہے۔
یہ عمل ہر طرح کے قانونی و آئینی اور اخلاقی لحاظ سے قابل مذمت ہے، ارجنٹائن کے بعد چلی میں جنرل فنوشے کے دور میں بدتریں شکل میں سامنے آئی اگرچی لاطینی امریکہ میں بھی کچھ عرصہ مخالفین کے خلاف یہ حربہ آزمایاگیا مگر جمہوری سیاسی روایات کی مضبوطی کے بعد اسے ترک کردیا گیا، پاکستان میں 2001 کو فوجی آمریت کے زمانے میں یہ عمل شروع کیا گیا خصوصاً بلوچستان میں جبری گمشدگی زور پکڑ گیا، بنگال کے بعد بلوچستان سیاسی لحاظ سے با شعور تریں سیاسی خطہ ہے اس لیے سب سے زیادہ متاثر بھی رہا ہے۔
بلوچستان میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو مخالف بیانیہ پر گمشدہ کردیا گیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اس وقت تقریبا 50 ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں، نیشنل پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری فضل کریم نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کا مسلہ گھمبیر بن گیا ہے، یہ آج کی نہیں بلکہ شروع سے ایسا ہورہا ہے، بلوچستان میں نہ صرف عام لوگ متاثر ہیں بلکہ سردار عطاء اللہ مینگل جو وزیر اعلی رہے ہیں ان کا بیٹا بھی لاپتہ کیا گیا، اب ہمارے لوگ بیرون دنیا میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
محمد کریم گچکی نے کہا کہ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد آواز اٹھاکر دنیا کو اس دن کے بارے میں متوجہ کرنا ہے، ہمارے ہاں بنیادی انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے افراد کو لاپتہ کرنا معمول بن گیا ہے، سیاسی جماعتیں اپنی ڈگر سے ہٹ گئی ہیں اور غیر ضروری معاملات میں خود کو الجھا کر سیاسی و سماجی مسائل سے بیگانہ ہیں۔سیاسی جماعتوں کو عوام کے بنیادی حقوق اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اتحاد کرنا چاہیے۔
بی ایس او پجار تربت زون کے نائب صدر صدام ناز نے کہا کہ جبری گمشدگی کا سلسلہ 26 جون 2006 سے شروع کیا گیا جس میں سیکڑوں لوگ لاپتہ ہیں جن کی صحیح ریکارڈ موجود نہیں ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ماما قدیر وائس فار مسنگ پرسن کے نام سے تحریک چلارہے ہیں، بلوچوں پر ان کی زمین تنگ کرکے سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کو آزادانہ سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جارہی، خوف اور ڈر کا ایک ماحول پیدا کردیا گیا جس کی وجہ سے لوگ انسانی حقوق کے معاملات پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کو ڈر اور خوف کے ماحول سے نکل کر آواز بلند کرنا چاہیے، بشیر دانش نے کہا کہ جبری گمشدگی کا مسلہ صرف ایک ملک کا نہیں دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں پر لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق پر آواز اٹھانے کی پاداش میں اغواء کیا جاتا ہے البتہ ہمارے ہاں یہ معاملہ کچھ زیادہ حساس ہوگیا ہے، لاپتہ افراد کا معاملہ بہت حساس ہے، صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ ہر کوئی اپنی باری کا انتظار کرے، ڈاکٹر سمی پرواز نے کہا کہ ایک شخص کو لاپتہ کرنا ایک سوسائٹی کو ٹارچر کرنا ہے، بہت سے ایسے لوگ لاپتہ کردیے گئے۔
جو اپنی فیملی کے سربراہ اور کفیل تھے، ان کے جبری گمشدگی کے بعد پوری فیملی شدید معاشی خسارے کا شکار ہیں، بلوچستان میں گمشدگی کا مسلہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ ہے، بلوچستان کو انسانی حقوق کے لیے نوگو ایریا بنایا گیا ہے، سماجی کارکن حمل امین نے کہا کہ جبر کے زور پر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا، دنیا کے پہلے انسان حضرت عیسی تھے جنہیں اٹھایا گیا مگر یہ کام اب ریاستوں نے سنبھال لی ہے۔ پروگرام کے آخر میں ایچ آر سی پی کی ریجنل آفس کے سامنے لاپتہ افراد سے یکجہتی اور ان کی بازیابی کے لیے پر امن مظاہرہ کیا گیا، مظاہرین نے انسانی حقوق اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نعروں پر مبنی پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔