|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2021

افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان اور مزاحمتی فورسز کے درمیان گزشتہ شب بھی جھڑپیں جاری رہیں۔وادی پنجشیر طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ ہے اس کے علاوہ وہ تقریباً پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔طالبان نے وادی پنجشیر کا محاصرہ کررکھا ہے اور گزشتہ دو روز سے جھڑپیں جاری ہیں۔

گزشتہ شب بھی طالبان نے وادی پر حملہ کیا۔پنجشیر میں طالبان مخالف قومی مزاحمتی فورس (این آر ایف) کے ترجمان فہیم دستی نے بتایا کہ گزشتہ شب امریکی فوج کے انخلاء کے بعد طالبان نے وادی پر حملہ کیا تھا جسے پسپا کردیا گیا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ شب ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 30 طالبان جنگجو مارے گئے اور 15 زخمی ہوئے۔

ان کا کہنا تھاکہ طالبان حملے میں 2 مزاحمتی اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں، اس کے علاوہ مزاحتمی فورسز نے فوجی سازو سامان بھی قبضے میں لیا ہے۔فہیم دستی نے طالبان سے مذاکرات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ وادی کا دفاع جاری رکھا جائے گا۔ دوسری جانب برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق وادی پنجشیر میں گزشتہ شب بھی طالبان اور مزاحمتی فورس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔

رائٹرز نے وادی پنجشیر کے طالبان مخالف مزاحمتی فورس کے 2 ارکان کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پیر کی شب ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 8 طالبان جنگجو مارے گئے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی پنجشیرمیں مزاحمتی فورس کی قیادت کرنے والے احمد مسعود کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیاتھا کہ طالبان نے پیر کی شام پنجشیر میں ایک سرحدی چوکی پر حملہ کیا جسے مزاحمتی فورسز نے پسپا کردیا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق طالبان نے پنجشیر کا مواصلاتی رابطہ منقطع کررکھا ہے۔سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود شاہ وادی پنجشیر میں مزاحتمی تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔دوسری جانب پنجشیر میں افغان مزاحمتی تحریک کے رہنماء احمد مسعود کا کہنا ہے کہ اگر طالبان طاقت کی تقسیم کے معاہدے پر راضی ہو جائیں تو وہ ان کے خلاف مزاحمت ختم کر دیں گے۔

احمد مسعود 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے جنگجو کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں جو کابل کے شمال میں واقع وادی پنجشیر میں موجود ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے احمد مسعود نے واضح کیا کہ امن کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور افغانستان میں ناانصافی اور عدم مساوات کو جاری رہنے دیں، اگر طالبان طاقت کی مساوی تقسیم کے معاہدے پر پہنچنے کے لیے تیار ہیں تو وہ ایک ایسے تصفیے کی طرف بڑھ سکتے ہیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔

امریکی فوج کاانخلاء مکمل تو ہوگیا ہے مگر افغانستان کے اندرون خانہ معاملات فی الحال معمول پر نہیں آئے ہیں اور اس وقت پنجشیر میں مزاحمتی تحریک چل رہی ہے جس میں ایک واضح شرط رکھی گئی ہے کہ افغانستان میں جامع حکومت بنائی جائے تب مزاحمت روک دی جائے گی ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ پنجشیر میں موجود مزاحمتی گروپ طاقت کا توازن یکطرفہ طور پر قبول نہیں کرنا چاہتے اگر طالبان نے مذاکراتی عمل کے ذریعے پنجشیر کے مزاحمتی گروپ سمیت افغانستان میں موجوددیگر سے معاملات حل نہیں کئے تو اس امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا کہ افغانستان خانہ جنگی کی طرف جائے گا اور ایک علاقے سے دوسرے علاقوں میں یہ جنگ منتقل ہوجائے گی اس طرح سے طالبان ایک مستحکم حکومت بنانے میں ناکام رہیں گے ۔

بہرحال افغانستان کے وسیع ترمفاد میں طالبان کو فیصلہ کرنا ہوگا جب طالبان دنیا بھر کے ساتھ بہترین تعلقات کے خواہش مند ہیں تواندرون خانہ بھی ایک بہتر انداز میں سیاسی معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا تاکہ طالبان کو آنے والے وقت میں بڑے چیلنجز کا سامنا نہ کرناپڑے اور افغان عوام جس امن کیلئے دہائیوں سے ترس رہے ہیں وہ خواب پورا نہ ہوسکے اس سے یقینا افغان عوام شدید مایوس ہوجائے گی کیونکہ یہ ایک بہترین موقع ہے افغان قیادت پر کہ اپنے معاملات کو احسن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کرے اسی سے افغانستان میں امن اور خوشحالی آسکتی ہے ۔