|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2021

مملکت خداداد میں بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں مسند اقتدار پر ہمیشہ وہ لوگ براجمان ہوئے ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں اور نہ انہیں عوامی اور سماجی مسائل سے دلچسپی رہی ہے ۔یہ ہمیشہ اپنے مفادات کا خیال رکھتے آرہے ہیں، سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر وقت سائیبریا کے پرندوں کی طرح موسم کو دیکھ کر آشیانے بدلتے رہے اور انہیں یہ حرکت کرتے ہوئے خفیف سی خفت بھی محسوس نہیں ہوتی۔

بلوچستان کو جب سے صوبے کا درجہ ملا ہے صوبے کی بھاگیں انہی لوگوں کے ہاتھوں میں رہے ہیں کچھ تو ایسے بھی ہیں جو تین پشتوں سے اقتدار کی شاہی کرسی کی سواری کرتے آرہے ہیں اور کئی ایسے ہیں جو بارہا وزارت کے پرکیف لمحات سے لطف اندوز ہوچکے ہیں لیکن باوجود اس کے انہی کے آبائی علاقوں میں نہ بجلی نام کی کوئی چیز ہے اور نہ کوئی معیاری اسکول۔ ہاں کھنڈرات کی شکل میں عمارات ضرور موجود ہیں جو اپنی تباہی کے آثار بنے ہوئے ہیں اور فی الحال امید کی کوئی کرن بھی ایسی نظر نہیں آرہی جس سے یہ امید بھر آئے کہ اگلے چند سالوں یا مستقبل قریب میں صوبے کے حالات بہتر ہوں گے ۔

ابھی تو معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اہل بلوچستان کوپانی اور بجلی کے حصول کے لیے روزانہ ہڑتال کرنا پڑتا ہے ، پورا صوبہ گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے، بے روزگاری، نوکریوں کی بندر بانٹ، من پسند لوگوں کی دلکش پوسٹوں پر تعیناتی، یہ مسائل تو پورے بلوچستان کو درپیش ہیں مگر بلوچستان میں ایک ایسا بدقسمت ڈویژن بھی ہے جسے مکران ڈویژن کہا جاتا ہے ، غضب یہ کہ پورے ڈویژن میں ایک بھی پٹرول پمپ نہیں جو ملکی پٹرول کی ترسیل کرے ماسوائے گوادر کے جہاں ملکی پٹرول دستیاب ہے۔ پورے مکران کی پٹرول براہ راست گاڑیوں کے ذریعے ایران سے آتا ہے اس میں ایک فائدہ تو یہ ہے کہ پٹرول سستا ملتا تھا اور ہر جگہ ملتا تھا دوسری یہ کہ پٹرول کے کاروبار کرنے والوں کے چولہے جلتے تھے مگر کچھ عرصہ ہوا ہے کہ پٹرول کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے خورونوش جو ایران سے آتی تھیں، پر مکمل پابندی لاگو کردی گئی ہے جس سے پورے بلوچستان خاص کر مکران میں شدید مہنگائی نے سر اٹھایا ہے۔ یہ بدقسمت ڈویژن ہمیشہ ظلم اور ناانصافیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔

2013 کے الیکشن کے بعد شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار متوسط طبقے کا ایک ایسا انسان جو ہمیشہ تربت کی سڑکوں پر پیدل گھومتاپھرتا تھا بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنا اور انہوں نے کمال مہارت سے پورے بلوچستان میں اپنے بہترین طرز حکمرانی کا لوہا منوایا، خاص طور پر مکران میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جن کو تاریخ کے خوبصورت تریں صفحات میں شمار کیا جائے گا، ڈاکٹر مالک بلوچ ایسے وزیر اعلیٰ گزرے ہیں جن کی کارکردگی نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں مثالی رہی ہے، اپنے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں ڈاکٹر مالک بلوچ نے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی بیشتر اوقات اپنے ورکروں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر دسترخوان لگاکر کھانا کھایا، ان کی اکثر محفلوں کی رونق ان کے ورکرز ہوتے تھے، کوئی مانے یا نہ مانے مالک بلوچ ناقابل تسخیر بن چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ نیشنل پارٹی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے پاؤں ضرور زمین پر لیکن نگاہیں آسمان پر ہیں۔