گزشتہ دنوں ملک کے معروف گلوکار ابرار الحق نے ایک تقریب کے دوران والدین کی بچوں سے متعلق تربیت پر ایک جملہ کہا جو خود ابرار الحق کے ہی شعبہ سے منسلک موسیقی پر تھا ،ان کا کہنا تھا کہ آج کل والدین اپنے بچوں کو سلاتے ہوئے موسیقی سناتے ہیں اورانہوں نے انگریزی ورژن کا سانگ سنایا جو ان دنوں بہت زیادہ مقبول ہے کہ والدین اپنے بچوں کو موبائل فون ہاتھ میں دیکر یہ گانا سناتے ہوئے انہیں سلاتے ہیں۔
تقریب میں موجود شریف النفس اور باوقار افراد اس پر ہنستے ہوئے تالیاں بجائیںاور خوب داد د دی۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ابرار الحق جوکہ خود موسیقی کی دنیا سے مقبولیت پاکر اب سیاست میں آچکے ہیں وہ اس طرح کی عجیب بات کررہے ہیں اور تعجب اس بات کا بھی ہے کہ ابرار الحق نے خود پنجابی میں جوسانگ گائے ان میں تو براہ راست معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہونے کے پہلو بہت زیادہ ہیں۔
جس میں’’ اساں دے جانا بلودے گر، ٹکٹ کٹاؤ لین بنائو‘‘، اور پھر ’’نچ پنجابن نچ‘‘ جیسے سانگ انہوں نے گائے تو اس سے وہ کیا پیغام معاشرے کو دے رہے تھے اور اس وقت کے والدین یہ گانا نہیں سنا کرتے تھے یا نوجوان طبقہ اس موسیقی سے محظوظ نہیںہواکرتا تھا بلکہ یہ تو ابرار الحق کی کیریئر کے معروف سانگ شمار ہوتے ہیں۔
جب انسان خود کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے وہ سمجھتاہو کہ معاشرے پر اس کے منفی اثرات پڑیں گے تو اس کی تنقید کو سنا جاسکتا ہے اور اس پر بحث کی گنجائش موجود ہوتی ہے مگر اپنے عمل سے متضاد کردارادا کرے اور دوسروں پر اسی عمل کو دہرانے پر تنقید کرے تو یقینا اس پر بحث نہیں تنقید ہی کی جاسکتی ہے اور اس لئے گزشتہ چند دنوں سے شوبزسمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے ابرار الحق کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ماضی یاد دلایاہے۔
کہ انہوں نے شہرت کس طرح اور کیسے حاصل کی ۔ بہرحال ابرارالحق کو یہ ضرورسوچنا چاہئے تھا کہ وہ جوکچھ کہہ رہے ہیں اس سے ان ماؤں کی کتنی دل آزاری ہوتی ہوگی کہ وہ بہت ہی لاپرواہی اور غفلت سے کام لیتے ہوئے بچوں کی تربیت کررہے ہیں حالانکہ بچوں کی تربیت صرف ماں نہیں بلکہ والد بھی کرتا ہے اور دونوں کے مشترکہ عمل اور رویہ سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
یہ الگ بحث ہے کہ کون اپنے بچوں کی تربیت کو کس طرح کرتا ہے مگر معاشرتی رویوں پر بات کیوں نہیں کی جاتی کہ آج جس طرح سے ہمارا معاشرہ زوال پذیرہے اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جاسکتی ہے ۔ ملک میں آئے روز جنسی ہراسمنٹ کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے خواتین اور بچوں کو نہ صرف تشدد بلکہ جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں قتل کیاجارہا ہے۔
کون اس کا ذمہ دار ہے یقینا سب سے پہلے ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے میں مثبت رجحان کو پروان چڑھانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور اس میں ہمیشہ نصاب کو نظرانداز کیاجاتا ہے جو بنیادی طور پر بچوں کی تربیت اور ذہنی شعور میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور ان کی شخصیت میں بڑی تبدیلیاں پیداکرتا ہے مگر مجال ہے کہ اس پر کھل کر بحث کی جائے اور اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ موجودہ نصاب جدید دور کے تقاضوں کوپورا نہیں کررہا اور ہمیں نصاب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جس میں انسان کی ہر لحاظ سے تربیت کے حوالے سے موضوعات شامل ہونے چاہئیں تاکہ بچوں میں معاشرتی ، سماجی اورجنسی معاملات کے حوالے سے معلومات مل سکے تب جاکر ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ماؤں یا پھر والدین اور لوگوں پر تنقید کرکے کوئی بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان کو موردالزام ٹہرایاجاسکتا ہے۔
اصل میں بنیادی چیزوںکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے امید ہے کہ ابرار الحق صاحب جب ماؤں کا ذکر دوبارہ کرینگے تو مشترکہ رویوں ، حکمرانوں کی پالیسی اور ریاست کی ذمہ داری کوسامنے رکھتے ہوئے بات کرینگے تاکہ انہیں مثبت انداز میں داد مل سکے ،سستی شہرت کے چکر میں ہدف تنقید سے تو بچ سکیں۔