گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں خواتین سمیت بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے خاص کر خواتین و بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے کیسز نے عوام کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور لوگ اپنی خواتین و بچوں کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں لہذا اس کے تدارک کیلئے ایک جامع اور واضح پالیسی کے ساتھ قانون سازی کی اشد ضرورت ہے ۔
خوف کے حصار میں معاشرے میں کوئی بھی انسان صحتمند ذہن کے ساتھ نہیں رہ سکتا بلکہ خوفزدہ رہتے ہوئے مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے ۔بدقسمتی سے اب تک زیادتی جیسے سنگین نوعیت کے واقعات مسلسل رونما ہورہے ہیں مگر ہماری ترجیحات میں اسے انتہائی معمولی انداز میں لیتے ہوئے فیصلے کئے جارہے ہیں۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پارکوں میں خواتین کی انٹری کے اوقات کار متعین کرنے پر پنجاب حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کا اجلاس سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت ہوا جس میں 14 اگست کو مینار پاکستان پر ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے ساتھ ہونے والے بدسلوکی کے واقعے کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
دوران اجلاس وزارت انسانی حقوق نے مینار پاکستان واقعے کی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مانیٹر کرتے رہتے ہیں۔وزارت انسانی حقوق نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مینار پاکستان کا واقعہ 14 اگست کو پیش آیا، وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے معاملے کا نوٹس لیا اور ایف آئی آر کے اندراج کو یقینی بنوایا، مینار پاکستان واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 141 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا اور شناخت پریڈ کروائی گئی جس میں عائشہ اکرم نہیں آئیں، واقعے میں ملوث ملزمان کی شناخت کے لیے گزشتہ روز ایک شناخت پریڈ ہوئی جس میں عائشہ اکرم خود آئیں، عائشہ اکرم نے 6 افراد کی شناخت کرلی ہے جن کو گرفتار کر لیا گیا ہے، واقعے کی مزید تحقیقات کے لیے 4 خصوصی کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں۔
اس موقع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پنجاب کے پارکوں میں عورتوں کی انٹری کے اوقات کار متعین کرنے پر صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عورتوں پر پابندی کے بجائے سنگل افراد کے داخلے پر پابندی لگائی جائے۔شیریں مزاری کا کہنا تھا پارکوں میں عورتوں کے لیے وقت کا تعین تعجب والی بات ہے، پنجاب حکومت پابندیاں لگانے کے بجائے عورتوں کے لیے ماحول بہتر بنائے۔
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ پابندیاں مسائل کا حل نہیں بلکہ بہترین ماحول کی فراہمی سے ہی معاشرے سے اس غلاظت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اس لئے نہ صرف پنجاب حکومت بلکہ دیگر صوبوں میں بھی زیادتی و ہراسمنٹ کے واقعات کی روک تھام کیلئے تبدیلی لانے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح سے عوام کو خوف کے حصار سے نکالتے ہوئے انہیں ایک محفوظ معاشرہ فراہم کیا جاسکے تاکہ عوام ایک مثبت معاشرے میں بہتر انداز میں اپنی معمولات زندگی گزار سکیں۔