وادی پنجشیرکا کنٹرول حاصل کرنے کی خوشی میں کابل میں طالبان کی ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں متعدد افراد کی ہلاکتوں کی متضاد اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ افغان نشریاتی ادارے نے پہلے ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں 17 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا تاہم بعد ازاں افغان میڈیا نے اپنی رپورٹ کو غلط قرار دیا۔ افغان میڈیا کے مطابق ہوائی فائرنگ میں 2 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے جنگجوؤں کو ہوائی فائرنگ سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ادھر پنجشیر مزاحمتی محاذ نے طالبان کی فتح کا دعویٰ مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ وادی کا بھرپور دفاع کیا جارہا ہے۔علاوہ ازیں کابل میں خواتین ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس نے ذمہ د اریاں سنبھال لی ہیں، کابل کی سب سے بڑی منی چینجر مارکیٹ بھی عوام کے لیے کھول دی گئی ہے۔اقوام متحدہ نے 13ستمبر کو افغانستان کے معاملے پر اعلیٰ سطح کی امدادی کانفرنس بْلانے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والی فورس کے سربراہ احمد مسعود کا کہنا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے لڑنے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
گزشتہ روز طالبان کی جانب سے وادی پنجشیر کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا تاہم ترجمان مزاحمتی فورس نے طالبان کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے جنگجوؤں کو طالبان پر سبقت حاصل ہے۔ اب احمد شاہ مسعود کے بیٹے اور مزاحمتی فورس کے سربراہ احمد مسعود نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے مزاحمت اور لڑائی کرنا نہیں چھوڑیں گے، یہ مزاحمت صرف وادی پنجشیر تک محدود نہیں ہے بلکہ اپنے حقوق کے لیے کوشاں افغان خواتین بھی اس جدوجہد میں شامل ہیں۔ سربراہ مزاحمتی فورس کا کہنا ہے کہ افغان عوام آزادی اور انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں، مزاحمت جاری رکھیں گے، پنجشیر میں مزاحمت اب تک مضبوطی سے جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق پنجشیر سوویت یونین کے دور سے اب تک تقریباً آزاد ہی رہا ہے اور ہر دور میں مزاحمت جاری رکھا ہے۔ طالبان کے آخری دور حکومت میں بھی بلخ، بدخشاں اور پنجشیر میں طالبان کا نظام حکومت نافذ نہیں تھا البتہ اس بار طالبان نے بلخ اور بدخشاں پر کنٹرول قائم کرلیا ہے لیکن پنجشیر اب بھی ان کے کنٹرول میں نہیں۔ پنجشیر کی مزاحمت کو حکومتی شراکت داری کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے فی الحال طالبان کسی صورت اس حوالے سے راضی دکھائی نہیں دے رہے۔ بہر حال اس جنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے بشرطیکہ دونوں فریقین چند نکات پر متفق ہوجائیں کیونکہ یہ دونوں فریقین کے ساتھ افغانستان کے بھی وسیع تر مفاد میں ہوگا البتہ طالبان کے افغانستان میں حکومتی تشکیل کے بعد مزید چیلنجز سامنے آئینگے جو عالمی برادری کے شرائط کی وجہ سے ہونگے۔
.