|

وقتِ اشاعت :   September 7 – 2021

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور میں شمولیت کے خواہاں ہیں اور پاکستان کی تشویش کو دور کیا جائے گا۔اب تک افغانستان کے ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے صوبے پنجشیر کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اب جنگ کا دور ختم ہو چکا، حکومت سازی کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے، قومی حکومت کی تشکیل میں تمام فریقین کوشامل کیا جائے گا، جلد حکومت کا اعلان کریں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان سی پیک منصوبوں میں شمولیت کا خواہاں ہے۔ترجمان افغان طالبان نے دہشتگردی اور سلامتی سے متعلق پاکستان کی تشویش کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جن معاملات پر تشویش ہے انہیں دور کیا جائے گا، افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کرغزستان، افغانستان، تاجکستان اور پاکستان کے درمیان چار ملکی بجلی کے منصوبے ’کاسا‘ کو بھی تکمیل تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا۔واضح رہے کہ اس سے قبل بھی افغان طالبان سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں اور طالبان رہنما بارہا پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس بات کی یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔اس سے قبل افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے کہاتھاکہ افغانستان کی ترقی کا مستقبل چین کے ہاتھوں میں ہے، چین نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی حامی بھری ہے۔

چین کو افغانستان کا پڑوسی بلکہ سب سے اہم شراکت دار سمجھا جاتاہے، نیا افغانستان اپنی معیشت کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے چین کی مدد لے گا۔ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ ون بیلٹ ون روڈ خطے سے گزرنے والے سلک روڈ کی بحالی کا سنگ میل ہے، افغانستان میں تانبے کے وافر ذخائر ہیں، تانبے کے ذخائرکو چینی دوستوں کی مدد سے افغانستان کی ترقی کے لیے استعمال کیاجائیگا، ہم چین کو عالمی منڈی تک رسائی کا پاسپورٹ سمجھتے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان روس کے ساتھ بھی مضبوط سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں، روس نے عالمی امن کے قیام کے لیے طالبان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔طالبان کی نئی حکومت کی تشکیل اور مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی بھی جاری ہے اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی تمام تر توجہ سب سے پہلے پاکستان، چین اور روس کے ساتھ تعلقات کو معاشی ، سفارتی حوالے سے مضبوط کرنا ہے یقینا اس عمل کا ردعمل دیگر ممالک کی جانب سے ضرور آئے گا.

کیونکہ دیگر عالمی طاقتیں پاکستان، چین اور روس کو زیر دست رکھنے کیلئے اس سے قبل بھی بلاک بناچکی ہیں جب افغانستان میں امریکن نواز حکومتیں بنی تھیں تو بھارت سمیت دیگر امریکی اتحادی ممالک کو افغانستان میں بہت زیادہ تجارتی اور سفارتی حوالے سے ترجیح دی گئی تھی مگر پاکستان کی قربانیوں کے باوجود بھی افغانستان سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہیں جنہیں روکنے کیلئے افغان حکومت اور عالمی طاقتوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی اور نہ ہی پاکستان کی اہمیت اور قربانیوں کوامن کے حوالے سے تسلیم کیا ۔

اب جب کہ طالبان کی نئی حکومت معاشی اور سفارتی پالیسیوں کے حوالے سے حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے میکنز م تیار کررہی ہے اسے بعض ممالک ہضم نہیں کرینگے مگر اس عمل سے خود انہی ممالک کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا جس طرح سے افغانستان میں انہیں 20سال تک کسی طرح کی کامیابی نہیں ملی اس لئے ضروری ہے کہ پوری دنیا نئے افغانستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے کردار ادا کرے اگر سازشیں کی گئیں تو اس سے فائدہ تو حاصل نہیں ہوگا البتہ نقصانات کا اندیشہ زیادہ ہوگا۔