نائن الیون کو 20برس بیت گئے مگر یاد آج بھی تازہ ہے۔ 11 ستمبر 2001 کو 19 دہشت گردوں نے 4 کمرشل طیاروں کو اغوا کیا۔ صبح 8 بجکر 46 منٹ پر انہوں نے پہلا طیارہ نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں موجود ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت سے ٹکرایا۔ٹھیک 17 منٹ بعد ایک اور طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور سے ٹکرا گیا اور 9 بجکر 37 منٹ پر دہشت گردوں نے پینٹاگون کی عمارت پر طیارہ گرایا۔دہشت گرد چوتھے طیارے سے مطلوبہ ہدف کو نشانہ نہ بنا سکے اور طیارہ پینسلوانیہ میں گر کر تباہ ہو گیا ۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں 2 ہزار 750، پینٹاگون میں 184 اور پنسلوانیہ میں 40 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے جبکہ تمام 19 دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔ 7 اکتوبر 2001 کو القاعدہ سے نائن الیون کا بدلہ لینے کے لیے امریکہ نے اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان پر حملہ کر دیا ۔اس واقعہ نے پورے دنیا کے حالات بدل کررکھ دیئے۔ اگر کہاجائے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بدلتی جنگی صورتحال میں نائن الیون کا مرکزی کردار ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ اس حملے کے بعد دنیا ایک نئی صف بندی کی طرف بڑھ گئی۔
ایک طرف عالمی قوتوں اور دوسری جانب شدت پسند دہشت گردتنظیمیں تھیں ،ایک گوریلا طرز کی جنگ شروع ہوئی امریکہ جیسے سپر پاور ملک نے بڑے ممالک کے ساتھ ملکر نیٹو اتحاد کی تشکیل کو یقینی بنایا اور پھر شدت پسند گروپس کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں اور افغانستان سے شدت پسند گروپس کے نیٹ ورکس ختم کرنے کیلئے بیس سال تک امریکہ اور اتحادی افواج نے جنگ لڑی ۔ نائن الیون کے بیس برس پورے ہونے پر امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے ایک جاری پیغام میں کہا کہ ہمیں باہمی اتحاد پر زوردینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اتحاد ایک ایسی چیز ہے جسے کبھی نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ امریکی صدر نے سانحہ نائن الیون میں ہلاک ہونے والے 2 ہزار 977 لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ سانحہ نائن الیون کو 20 برس گزر گئے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سانحہ کچھ ہی لمحہ پہلے کا ہے۔
بہرحال دہشتگردی کی ہر انسان دوست کبھی حمایت نہیں کرے گا کیونکہ امن سے ہی انسانیت کو فروغ دیاجاسکتا ہے مگر اس کے لئے اہم ذمہ داری عالمی برادری کی ہی بنتی ہے کیونکہ تاریخ کو مسخ نہیں کیاجاسکتا ۔نائن الیون ایک سانحہ تھا مگر اس سے قبل جو جنگیں لڑی گئیں اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے یہاں تک کہ جاپان کے دو بڑے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم تک گرائے گئے جو تاریخ کے صفحات پر آج بھی نقش ہیں جسے فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ہر جنگ نے ایک ہی درس دیا کہ امن سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے مگر ہر وقت معاشی اور علاقائی اجارہ داری کیلئے طاقتور ممالک نے کمزوروں کو زیرعتاب رکھنے کیلئے منصوبہ سازی کی اور مختلف گروپس تشکیل دیئے پھر انہیں انہی ممالک کی طرف بھیجا جہاں پر انہیں کنٹرول حاصل کرنا تھا، پھر آپریشن کی آڑ میں ان ممالک کا بری طرح استحصال کرتے رہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔مگر اب بھی وقت ہے خاص کر عالمی طاقتیں اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے اس عمل کو ترک کرکے حقیقی معنوں میں امن کے داعی بن جائیں تاکہ چند ممالک کیلئے دنیا میں امن اور خوشحالی نہ ہو بلکہ پوری دنیا میں امن اور ترقی کے راستے کھل جائیں ،اس لئے اتحاد کو وسیع ترپیمانے پر دیکھنا ہوگا گروہی اتحاد سے امن کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوگا بلکہ اس کے نقصانات زیادہ ہونگے جو محض اپنے مفادات کیلئے تشکیل کردہ اتحاد پر مشتمل ہو۔