|

وقتِ اشاعت :   September 14 – 2021

پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی سے ترقی کے بلندوبانگ دعوے بارہا کئے جاتے رہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ملک بھر میں ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کیلئے اہم اور بنیادی چیز بجلی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور دیگر علاقوں میں بجلی کی ترسیل کس حد تک موجود ہے مثال بلوچستان کی یہاں دی جاسکتی ہے کہ یہاںاب تک ایسے علاقے ہیں جہاں پر بجلی سمیت مواصلاتی نظام تک موجود نہیں ہے۔ آج بھی بلوچستان کے دور دراز کے علاقے پتھر کے زمانے کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔

ان علاقوں میںجدید ٹیکنالوجی تو کجا بنیادی انفراسٹرکچر تک موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بڑا قدم اٹھایاگیا ہے کہ جس کی مثال دیتے ہوئے یہ کہاجائے کہ بلوچستان میں بجلی سمیت مواصلاتی نظام کیلئے بڑے منصوبوں کا آغاز کردیا گیا ہے جلد ہی ان کی تکمیل سے بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں نہ صرف بجلی کا مسئلہ حل ہوجائے گا بلکہ مواصلاتی نظام سے بھی غریب عوام مستفیدہونگے۔ اس سے قبل جب کورونا وباء نے اپنے پنجے گاڑھے اور آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا گیا تو سب سے زیادہ احتجاج بلوچستان کے طلباء وطالبات نے کیا کیونکہ ان کے علاقوں میں بجلی ہی موجود نہیں ،موبائل نیٹ ورک کا تصور وہ کیسے کرسکتے ہیں اور ان اسٹوڈنٹس کااحتجاج بھی اسی بنیاد پر تھا کہ ہمارے علاقوں میں بجلی کانظام نہیں تو آن لائن کلاسز کیلئے جولوازمات درکار ہیںوہ کیسے پورا کریں، مجبوراََ انہیں کوئٹہ شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ کسی حدتک بجلی اور نیٹ ورک کے ذریعے اپنے تعلیم کو جاری رکھ سکیں مگر غریب اسٹوڈنٹس کیلئے کوئٹہ میں رہائش اختیارکرنا اور اخراجات برداشت کرنا انتہائی مشکل عمل ہے۔

چونکہ بلوچستان ایک غریب صوبہ ہے اور لوگوں کے گزر بسر کے ذرائع انتہائی محدود ہیں، سرحدوں پر جو روزگار کرتے ہیں وہ بھی بندش کا شکار رہتا ہے جس سے بلوچستان کی ایک بڑی آبادی معاشی حوالے سے مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے یہاں تک کہ ان کے گھروں میں فاقے ڈیرے ڈال دیتا ہے ۔دوسری زراعت ایک ذریعہ ہے مگر پانی کی صورتحال یہ ہے کہ ہر سال قحط پڑنے کی وجہ سے لوگوں کے زرعی زمین بنجرہوجاتے ہیں مجبوراََ انہیں اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑتی ہے کسی اور علاقے میں بسنے کیلئے کس طرح سے وہ اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں، ایک بار حکمران کوئٹہ ، گوادر کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کا دورہ ضرور کریں پھر انہیںاس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ بلو چستان جو آج ملک کی ترقی کا جھومر ہے کس طرح کے بدترین حالات سے دوچار ہے ۔یہ تو صرف بلوچستان کے چند مسائل یہاں بیان کئے گئے ہیں ملک کے دیگر صوبوں کے دیہی اور شہری علاقوں کی حالت بھی کچھ خاص بہتر نہیں ہے۔

ان تمام مسائل کو یہاں بیان کرنے کا بنیادی مقصد الیکٹرانک ووٹنگ کی طرف حکمرانوں کی توجہ مبذول کروانی ہے کہ کس طرح سے یہاں کے لوگ اپنے حقیقی نمائندگان کیلئے حق رائے دہی کا استعمال کرسکتے ہیں۔ گزشتہ روز جب کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات ہورہے تھے تو بعض حلقوںسے یہ شکایات سامنے آرہی تھیں کہ الیکشن کمیشن ٹیم کو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے شدید گرمی میںمشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ اگرالیکٹرانک ووٹنگ کا نظام ہوتا تو الیکشن کمیشن کی ٹیم سر پکڑ کر بیٹھ جاتی اور عوام کی پھر کیفیت کیا ہوتی جنہیں ووٹ کاسٹ کرنا ہوتا ۔ گزشتہ روز صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان درست سمت کی جانب گامزن ہے، اس ملک میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو سیاسی فٹ بال نہ بنائیں۔ بہرحال مسائل کے پیش نظر حکمران صحیح فیصلہ کریں تاکہ لوگوںکیلئے آسانی ہو۔ جس طرح سے صدر مملکت نے کہاکہ الیکٹرانک مشین کو سیاسی فٹبال نہ بنایاجائے یہی التجا عوام بھی کررہی ہے کہ ان کے حقیقی اور بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے بڑے اقدامات اٹھائے جائیں۔ ابھی تک بجلی اور مواصلاتی نظام کا مسئلہ ملک میں موجود ہے انہیں حل کرنے کی ضرورت ہے اسے حل کرنے کے بعد دوسرے بڑے انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ مستقبل میںیہ مسئلہ درد سرنہ بنے ۔