افغان جنگ سے پاکستان کو کبھی بھی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ اس سے بہت زیادہ نقصان ہی اٹھایا ہے۔ سرد جنگ سے لیکر نائن الیون تک خطے میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوچکی تھی ۔سرد جنگ کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اور خطے سے اثر ورسوخ کے بڑھتے امکانات کو ختم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اور اس جنگ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کو بھی شامل کیا ۔
اس جنگ کا بنیادی مقصد اس وقت کی سوویت یونین کا صرف خاتمہ ہی تھا تاکہ امریکہ اور مغرب کا تسلط سینٹرل ایشیاء سے لیکر ایشیائی ممالک پر برقرار رہے۔ کئی دہائیوںسے اس خطے میں عالمی طاقتوں کی تھانیداری اور تسلط کی جنگ چلتی آرہی ہے اسی چپقلش اور مفادات کی وجہ سے افغانستان نے بہت بڑی تباہی دیکھی اور امن ایک خواب بن کر رہ گیا ۔
جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا، سینٹرل ایشیائی ممالک جو سوویت یونین کا حصہ تھے وہ الگ ریاستوں کی صورت میں سامنے آئے، اسی طرح افغانستان میں بھی مجاہدین اور طالبان نے اپنی حکومت قائم کی اس پورے دورانیہ میں پاکستان امریکہ کے ساتھ بطور اتحادی شامل رہا۔ مجاہدین اور طالبان حکومت نے امریکہ نوازی اور عالمی طاقتوں کا آلہ کار بننے سے انکار کیا ،پھر نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا پھر ایک بار عالمی سطح پر صف بندی شروع ہوئی اور افغانستان پر حملے کا منصوبہ بنایاگیا اور ایک بہت بڑے آپریشن کیلئے امریکہ نے تمام اتحادیوں کو اکٹھا کیا جس میں پاکستان بھی شامل تھا ، اس بار جنگ کو امن کا نام دیا گیا اور امریکہ پاکستان پر بہت زیادہ مہربان ہوگیا۔
بیرونی سرمایہ کاری سمیت امدادکی صورت میں پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کے ساتھ فرنٹ لائن کا ساتھی قرار دیا ۔جب طالبان کی حکومت ختم ہوگئی امریکہ نے اپنی من پسند شخصیات پر مبنی حکومت تشکیل دی ،افغانستان میں افغان عوام کی مرضی ومنشاء کے مطابق جمہوری انداز میں انتخابات نہیں کرائے کیونکہ امریکہ اپنے مفادات کی تکمیل کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے پورے کرنا چاہتا تھا اور افغانستان میں اپنے ہی چہیتے ممالک کو سفارت کاری سمیت تجارتی حوالے سے ہر قسم کا تعاون فراہم کیا مگر پاکستان کو مکمل دیوار سے لگایاگیا۔
بہرحال یہ ایک مختصر تاریخ ہے مگر اس کو بارہا دہرایاجارہا ہے اب ایک بار پھر امریکہ کی جانب سے پاکستان کے متعلق منفی بیانات سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ارکان کانگریس کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت تک طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے جب تک وہ افغان سر زمین کو دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بننے کے و عدے کی پاسداری نہیں کرتے۔پاکستان کا افغانستان میں کردار رہا ہے ، پاکستان نے امریکا کے ساتھ تعاون بھی کیا اور ہمارے مفادات کے خلاف بھی رہا۔ امریکا کے مستقبل میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بنیاد کیا ہونی چاہیے اس کا جائزہ آنے والے ہفتوں میں لیا جائے گا۔امریکہ کی جانب سے اس پیغام کاجائزہ لیاجائے تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ مستقبل میں پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھاناچاہتاہے اور افغانستان کو بھی کنٹرول کرنے کیلئے منصوبہ بندی کررہا ہے ۔
افغانستان کو کنٹرول کرنے کیلئے سب سے پہلے اس کی معیشت کو لاغر کرنا ہے جو کہ پہلے سے آئی ایم ایف اور امریکہ کی جانب سے فنڈز کی بندش ہے تاکہ افغانستان میں موجود طالبان امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی بجائے ان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں۔ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کا مقصد معیشت کو مزید نقصان سے بچانا تھا اب امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر تمام معاملات کو براہ راست کنٹرول نہیں کرنا چاہتا بلکہ وائٹ ہاؤس واشنگٹن کی پالیسی کے ذریعے افغانستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اپنے کام نکالنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان کو بھی معاشی وسفارتی حوالے سے اپنے دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے مگر اس سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچے گا ۔
ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دباؤ اور طاقت کی پالیسی نے جنگ کو جنم دیا ہے اس لئے امریکہ اور عالمی طاقتوں کو یہ روش ترک کرنا چاہئے کیونکہ اس سے جنگی ماحول پیدا ہونے کا خطرہ ہے جس امن کیلئے طویل جنگ لڑی گئی اب اس کو برقرار رکھنے کیلئے ایک مثبت پالیسی کی ضرورت ہے جس میںسب کے مفادات کا تحفظ یقینی ہوسکے۔