بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں نے بالآخر وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرادی،اپوزیشن کے 16 اراکین نے بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی درخواست جمع کروائی جو سیکریٹری اسمبلی کو موصول ہوگئی ہے ۔تحریک عدم اعتماد کی کاپیاں گورنر بلوچستان، پرنسپل سیکرٹری، وزیراعلیٰ سمیت دیگر سیکرٹریز کو بھی ارسال کردی گئی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے تین سالوں میں جو کارکردگی دکھائی، اس پر انہیں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، آج جو حالات ہیں ہر شخص اس حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے۔
اپوزیشن اراکین نے کہاکہ صوبے میں بدامنی ،کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے ،سات دن کے اندر اس قرارداد پر اجلاس بلایا جائے گا،اپوزیشن جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ابھی مطلوبہ تعداد سامنے نہیں لائیں گے قرارداد والے دن سارے نمبر پورے ہو جائیں گے۔ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 33 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوگی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے عدم اعتماد کی تحریک پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ الحمدللہ مجھے عدم اعتماد کی تحریک کی پرواہ نہیں ہے، اگر میری جماعت اور اتحادی میرے ساتھ ہیں تو اپوزیشن سے فرق نہیں پڑتا، جس دن میری جماعت اور اتحادیوں کی اکثریت نے عدم اعتماد کیا تو خود چلا جاؤں گا۔
پارٹی اور اتحادیوں کا ساتھ نہ ہونے پر مجھے ایوان کا سربراہ ہونے کا حق نہیں ہوگا۔بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان کا ردعمل فطری ہے ،اب جام کمال خان اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیںگے جس میں وہ اپنی جماعت اور اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لینگے اور اس حوالے سے مشاورتی اجلاس اور ملاقاتیں بھی ہونگی۔ یہ کہاجاسکتا ہے کہ بلوچستان میں سیاسی گہماگہمی میں چند روز تک تیزی آئے گی اور خبروں کی زینت عدم اعتماد کی تحریک ہوگی۔ بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ اپوزیشن مطلوبہ تعداد پوری کرنے میں کامیاب ہوگی یہ انتہائی مشکل اور کسی حد تک ناممکن لگتا ہے جس کی ایک مثال سینیٹ انتخابات میں خود اپوزیشن جماعتوں کے چند اراکین کی شکست بھی ہے کہ کس طرح سے اپوزیشن کے اپنے ہی نامزد سینیٹ کے ارکان کامیابی کی بجائے ناکامی سے دوچار ہوئے اور چند ایم پی ایز نے اپنے ووٹ حکومتی نامزد کردہ سینیٹ ارکان کو دیئے جنہیں کامیابی ملی ۔اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کو محض دباؤ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جس کا ادراک خود اپوزیشن کو بھی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے ساتھ نہ صرف ان کی جماعت بلکہ اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی ہیں۔
اگر بہت بڑی تبدیلی اور سیاسی بحران کا خدشہ ا ورامکان ہوتا تو سردار یارمحمد رند، سردار صالح بھوتانی کے مستعفی ہونے کے بعد ہوتا مگر ان دو اہم سیاسی شخصیات کے مستعفی ہونے کے باوجود باپ اور پی ٹی آئی ارکان میں سے کسی نے لب کشائی نہیں کی بلکہ ایک لمبی خاموشی کا سلسلہ جاری رہا بلکہ بعض وزراء چندتصاویر پر وضاحتیں بھی دے رہے تھے
جب انہوں نے مستعفی رکن سے ملاقاتیں کیں ،ان کی طرف سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے حوالے سے کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی باپ کے سینئر ارکان نے اپنی ناراضگی ظاہر کی تو کس طرح سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف اپوزیشن جماعتوںکی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی اور حکومتی صف سے انہیں حمایت ملے گی ۔ہاں یہ ضرور ہوگا کہ چند دن سیاسی گہماگہمی رہی گی ،عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش ہو گی مگر اس کا حکومت پر فی الوقت کچھ بھی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ جام کمال خان اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہیں اور یہ واضح طور پر سیاسی حوالے سے نظر بھی آرہا ہے اور موجودہ حالات میں کسی معجزے کی بھی امید نہیں کی جاسکتی ۔جس طرح سے چند ماہ قبل حکومت واپوزیشن کا ٹکراؤ انتہائی کشیدہ صورتحال کو جنم دے چکا تھا ،آئندہ چند روز بھی سیاسی ماحول گرم رہے گا اور پھر یہ بڑھکتا شعلہ آہستہ آہستہ بجھ جائے گااور سیاسی حالات پھر معمول پر آئینگے۔