|

وقتِ اشاعت :   September 20 – 2021

افغانستان میں مشترکہ حکومت کی تشکیل اور مستقل امن سب کی خواہش ہے مگر یہ اس وقت نتیجہ خیزہوگا جب دنیا افغانستان کو مستحکم کرنے کیلئے بھرپور تعاون کرے گی اس کے لئے ایک ایسا روڈ میپ تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں طالبان سمیت دیگر فریقین کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوسکے اور عام انتخابات کے حوالے سے بہتر حکمت عملی بنائی جائے تاکہ اس کی شفافیت پر سوال نہ اٹھایاجاسکے اور ایک عوامی حکومت کی تشکیل ممکن ہوسکے۔

اگر افغانستان کو دیوار سے محض اس لئے لگانے کی سوچ اپنائی گئی کہ طالبان کیا روش اپناتے ہیں پھر آگے چل کر فیصلہ کیاجائے گا تو پیشگی خطرات سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ جس طرح دوحا امن معاہدہ ہوا اسی طرح افغانستان میں امن اور خوشحالی کیلئے طالبان کے ساتھ ابھی سے بات چیت کے عمل کو اپنایاجائے۔ یہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے کہ افغانستان مسئلے پر یواین سنجیدگی کے ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھارہی ہے۔

گزشتہ روزافغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن میں چھ ماہ کی توسیع کردی گئی۔ یو این افغان مشن میں توسیع کی قرارداد سلامتی کونسل میں متفقہ طور پر منظور کی گئی ۔قرارداد میں ایک جامع اور نمائندہ افغان حکومت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ سلامتی کونسل کے اراکین کا افغانستان میں امن اور استحکام کیلئے کردار جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کیلئے طالبان سے مذاکرات شروع کردئیے ہیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے طویل بات چیت کے بعد میں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کیلئے طالبان سے مذاکرات کی ابتداء کر دی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ 40 برس کی لڑائی کے بعد ان دھڑوں کی اقتدار میں شمولیت ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہو گی جو محض افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل افغانستان میں تاجک برادری اور پشتونوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کی کوششوں کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان نے تاجک صدر کو اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔دوشنبے میں تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے یقین دلایا کہ وہ طالبان پر زور دیں گے کہ طالبان سے محاذ آرائی نہ کرنے والے تاجک رہنماؤں کو افغان حکومت میں نمائندگی دی جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اس بات پر بھی زور دیں گے کہ صوبہ پنجشیر میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی جاری رکھی جائے۔بہرحال افغانستان میں شفاف انتخابات سے قبل ایک عبوری حکومت مشترکہ طور پر تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ افغان عوام اپنے حق رائے دہی کا استعمال آزادانہ طور پر کرسکیں، خوف اور جنگ کے سائے میں مزید افغان عوام رہ نہیں سکتے۔ اس بات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نقل مکانی کرکے اپنے اندر موجود خوف کااظہار کررہے ہیں گوکہ طالبان کی جانب سے بارہا یہ کہاجارہا ہے کہ طالبان کسی طرح کی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے اور نہ ہی دوبارہ اس طرح کاماحول پروان چڑھنے دیں گے ۔

البتہ یہ شہبات اپنی جگہ موجود ہیں کہ افغان عوام کی نقل مکانی کی وجہ فیصلوں کا مسلط ہونا ہے طالبان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ مشترکہ عبوری حکومت کی تشکیل پر لچک کامظاہرہ کریں تاکہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بہترین سفارتی تعلقات افغانستان کے بن سکیں ۔پاکستان کی کوششیں بھی قابل تعریف ہیں مگر عالمی قوتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ افغانستان کوتنہا نہ چھوڑیں بلکہ اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے امن کیلئے کوششوں کوتیز کریں تاکہ مستقبل کا بہتر افغانستان دنیا کے سامنے آسکے۔