گزشتہ روز وفاقی وزیر شہریارآفریدی نے امریکہ کے مختلف مقامات پر جاکر ویڈیوزبناتے ہوئے امریکہ اور پاکستان کے درمیان کلچر اورمعیشت کاموازنہ کیا۔جبکہ اس وقت امریکی معیشت پر بات کرنا زیادہ ضروری ہے کیونکہ کلچر زبان جدیدیت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیںاور یہ ایک لمبی بحث ہے کہ کس طرح سے مختلف اقوام کی زبانوں اور کلچر میں فرق ،رہن سہن ،سماجی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں مگر ہمارے یہاں بہت ہی آسانی سے ان اہم موضوعات پر چار جملے کہہ کر سماجی تبدیلیوںکی وجوہات کوبدل کررکھ دیا جاتا ہے۔ شہریار آفریدی نے جب امریکہ کے ایک مقام پر لوگوں کے فٹ پاتھ پر سونے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کی غربت اور ہمارے ملک کے لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کی مثالیں دیںکہ کس طرح ملک کا سربراہ جب مخلص ہوتا ہے تو وہ اپنے عوام کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اس طرح کے اقدامات اٹھاتا ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں سمجھنے کی کم سمجھانے کا رجحان زیادہ ہے کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے موصوف وزیر جب فٹ پاتھ پر سوئے افراد کی مثالیں دے رہا تھا تو اس وقت انہیں یہ یاد کیوں نہیں آیا کہ دنیا کی امیر ترین شخصیات امریکہ میں رہتی ہیں، دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کی ہے، دنیا بھر سے لوگ امریکہ جانے کے خواہش مند محض اس لئے ہوتے ہیںکہ انہیں وہاںمعاشی طور پر ترقی کرنی ہوتی ہے، ہمارے اپنے ملک کی کتنی بڑی تعداد میںلوگ اس وقت امریکہ میں رہتے ہیں اور ہمارے حکمران بھی تقاضا انہی سے کرتے ہیںکہ وہ پاکستان میں ڈالر بھیجیں تاکہ ہماری معیشت نہ صرف مستحکم ہوسکے بلکہ روپے کی قدر بھی بہتر ہوسکے۔ نہ جانے کیوں اس طرح کا عمل دہرایا جاتا ہے جن کا موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا ۔جہاں اپنے ملک کی معیشت ، بیروزگاری، مہنگائی پر توجہ دینی چاہئے وہیں ہمارے وزراء دیگر ممالک کی مثالیںدے کر ٹرخانے میں لگ جاتے ہیں۔ اب گزشتہ دنوںہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تو دنیا کے دیگر ممالک سے قیمتوں کے متعلق بریفنگ دی گئی کہ ہمارے یہاں دیگر ممالک کی نسبتاََ پیٹرولیم مصنوعات سستی ہیں ۔
وزیرصاحبان جتنی بھی بیانات یامثالیں دیں اس سے معیشت ترقی نہیں کرے گی اور نہ ہی عوام کی زندگی میںکوئی تبدیلی آئے گی۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے اور کابینہ میں مہنگائی کے معاملے پر سنجیدہ گفتگو ہوئی ہے جبکہ امپورٹ کرنے والے ممالک میں پاکستان میں پیٹرول کی قیمت سب سے کم ہے، غریب لوگوں کے لیے سبسڈی پروگرام لارہے ہیں، تنخواہ دارطبقے کو مشکلات کا سامنا ہے ان کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔نہ جانے کب یہ اقدامات عملی شکل اختیارکرینگے کیونکہ گھریلو اشیاء اس قدر مہنگی ہوتی جارہی ہیںکہ غریب عوام نے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں ان کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ گزشتہ روز ہی ملک بھرمیں یوٹیلیٹی اسٹورز پر مختلف اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ۔یوٹیلیٹی اسٹورز پر مختلف برانڈز کے صابن3 سے 10 روپے تک مہنگے ہوگئے ہیں۔ ٹشو پیپراورنیپکن کی قیمتیں 3 سے 19 روپے تک بڑھا دی گئی ہیں۔کپڑے دھونے کا صابن 22 روپے، ٹوائلٹ کلینر اور بلیچ کی قیمت4 سے12 روپے تک بڑھا دی گئی ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر ملک کریم 10 روپے مہنگی کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل بھی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا۔مختلف برانڈز کے گھی کی قیمتوں میں 96 روپے تک فی کلو اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مختلف برانڈز کا کوکنگ آئل 97 روپے تک فی لیٹر مہنگا ہو گیا ہے۔کارن کوکنگ آئل 370 روپے تک فی لیٹر مہنگا ہوچکا ہے۔ کارن کوکنگ آئل کی قیمت 500 سے بڑھ کر 870 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے۔ٹی وائٹنر کی 1.2 کلوگرام قیمت 40 روپے تک بڑھادی گئی ہے۔ کسٹرڈ اور کھیر سمیت مختلف سویٹ ڈش کے چھوٹے ڈبے 10 روپے تک مہنگے کر دیئے گئے ہیں۔فیس کریم کی 50 گرام قیمت میں 40 روپے تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹشو ڈبہ 15 روپے اور ٹشو رول 5 روپے تک مہنگا کردیا گیا ہے۔ کالی مرچ کے ڈبے کی قیمت 10 روپے تک بڑھا دی گئی ہے۔چلی، گارلک، بی بی کیو اور پیزا ساس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ صابن، ٹی مکس، لیکوٹ فلور کلینر کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ان تمام اشیاء کو لوگ روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں گھریلو اشیاء کی قیمتوں کو پَر لگنے کے تسلسل کو روکنے کی بجائے اوٹ پٹانگ مثالیں دی جاتی ہیں ۔ ہمارے وزراء کے عجیب وغریب منطقوں سے ملک کا بھلا تو نہیں ہوسکتا البتہ جگ ہنسائی ضرور ہوتی ہے، اس لئے دوسروں پر تنقید کرنے کی بجائے اپنی معاشی سمت کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے ممالک ہماری معاشی ترقی کی مثالیں دے سکیں۔