بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے جب وفاقی حکومت کی جانب سے اعلانات کئے جاتے ہیں تو یقینا ماضی یادآجاتی ہے کہ وفاق میں آنے والی ہر حکومت نے بلوچستان میں ترقی کے بلندوبانگ دعوے کئے مگر عملاََکچھ بھی نہیںکیا بلکہ بلوچستان کے وسائل سے محاصل لیکر رقم دیگر صوبوں میںخرچ کئے جاتے رہے جبکہ بلوچستان کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے پسماندگی کی طرف دھکیلاگیا اور اس کا ذکر ہر بار کیاجاتا رہا ہے۔
بدقسمتی سے بلوچستان کے لوگوں کے درد کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا گیا کہ کس طرح یہاں کے باسی چھوٹے مسائل پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں البتہ جب بھی میگامنصوبوںکا جن کابراہ راست تعلق بلوچستان سے ہوتا ہے تو اس دوران تمام ترمسائل حل کرنے سمیت شہد اور دودھ کی نہریں بہانے کی باتیں کی جاتی ہیں، زمینی حقائق سے آج کے اس جدید دور میںاب بلوچستان کامسئلہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ یہاں کس قدر مسائل موجود ہیں اور آج جب پورے ملک میں ترقی اور انفراسٹرکچر پر کام ہورہا ہے ہمارے نوجوان سڑکوں پر اپنے تعلیمی مسائل حل کرنے کیلئے سراپااحتجاج ہیں جسے حل کرنے کی بجائے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ نوجوان طلباء پر لاٹھی چارج کرکے ان کی زبان بندی کی جاتی ہے ۔
اب ایک بار پھر طلباء سڑکوں پر اپنے حقوق کیلئے نکل آئے ہیں شومئی قسمت کسی بھی حکومتی نمائندے نے ملاقات کرکے جھوٹی تسلی دینے کی بھی زحمت نہیں کی ،ناراض اراکین ہی چلے جاتے جو بلوچستان کا رونا روتے ہوئے بہت بڑی تبدیلی اپوزیشن کے ساتھ ملکر لانا چاہتے ہیں حقیقی مسائل تو یہی ہیںکہ جب نوجوان طبقہ اپنے نمائندگان سے نالاںہوکر سڑکوں پر آتے ہیں جنہیں سننے کی ضرورت ہے مگر نہیں کیونکہ اقتدار کی عادی شخصیات کو اپنے مفادات ہی زیادہ عزیز ہوتے ہیں ۔ بہرحال سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری صوبے کے ایگزیکٹیو کی ہوتی ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے بھرپور طریقے سے اپنا کردار عملی طور پر ادا کرے محض دعوؤںسے بلوچستان کے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے ،روزانہ بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن انہیں عملی جامہ پہنایا نہیں جاتا۔
گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان نے سی پیک مشترکہ تعاون کمیٹی کے دسویں اجلاس میں شرکت کی ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جا کمال خان کاکہناتھا کہ گوادر سی پیک کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ گوادر چین کے مغربی حصے کو بحر ہند اور خلیجی خطے سے جوڑنے کا مختصر ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔ ہمارے پاس ایشیاء میں تانبے، سونے، کرومائٹ اور کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ چینی کمپنیاں پہلے ہی بلوچستان میں معدنیات کے شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہاکہ بلوچستان میں سی پیک پروجیکٹس روزگار کے مواقعوں کے ساتھ ساتھ شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ حکومت بلوچستان چینی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے پُر عزم ہے۔ حکومت سی پیک سیکنڈ فیز سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
توانائی، کانکنی، ماہی گیری اور سیاحت کے شعبوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ہم اپنے چینی دوستوں کو ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں۔ بلوچستان میں بنیادی ڈھانچے خاص طور پر سڑکوں اور ریلوے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کاکہنا تھا کہ گوادر کو خضدار اور کوئٹہ سے بذریعہ ریل منسلک کرنے سے گوادر پورٹ کو تجارتی طور پر قابل عمل کمرشل بندرگاہ بنایا جا سکتا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے جن خیالات کااظہار کیا ان کے جذبات کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر کیا ماضی کے وزراء اعلیٰ نے یہی جملے نہیں دہرائے، کیا انہوںنے بڑے بڑے منصوبوں کے فیتے نہیں کاٹے؟
بلوچستان کو ترقی کی بلندی تک پہنچانے کے اعلانات نہیں کئے؟سی پیک یقینا ایک بہت بڑاگیم چینجر منصوبہ ہے مگر اس سے بلوچستان کے عوام کو اب تک کے حاصل ہونے والے فوائدگنوائے تو جائیں کہ بلوچستان کومالی حوالے سے کتنا فائدہ پہنچا؟روزگارسے کتنے افراد مستفید ہوئے؟ ایک طویل فہرست ہے لہٰذا شکایات کی بارہانشاندہی کا بنیادی مقصد وفاقی وصوبائی حکومت کی توجہ بلوچستان کے مسائل پر مبذول کرانا ہے تاکہ وہ بلوچستان کی ترقی کیلئے عملی طور پرکردار ادا کریں، بلوچستان کی ترقی سے ہی ملک ترقی کرے گا نصف ملک کے حصے کوچھوڑکر ترقی کیسے ممکن ہوسکتی ہے اس لئے بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور بلوچستان کو اس کاجائز حق دیاجائے تاکہ بلوچستان بھی دیگر صوبوں کی طرح ہر شعبے میں آگے بڑھے اوریہاں بھی خوشحالی کا عملی طور پر آغاز ہوسکے۔