|

وقتِ اشاعت :   September 25 – 2021

کوئٹہ: بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماؤں ماہ جبین بلوچ ، خالدہ بلوچ ، ثمینہ بلوچ و دیگر نے تاج بی بی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ کیخلاف جلد احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے یہ بات انہوں نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ دنوں تاج بی بی کا ہونے والا قتل عرصہ دراز سے بلوچستان میں جاری صورتحال کا تسلسل ہے ،انہوں نے الزام عائد کیا کہ تاج بی بی کو سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے فائرنگ کا نشانہ بناکر قتل کیا جبکہ ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ان کے شوہر کو زخمی کردیا گیا۔ ا

نہوںنے کہا کہ تاج بی بی بلوچستان میں پہلی متاثرہ خاتون نہیں اس سے پہلے کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں بچے ، خواتین ، نوجوان اور بزرگ مبینہ طور پر نشانہ بنے۔ سیاسی جماعتیں ، وکلاء ، انسانی حقوق کے ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف آواز بلند کریں کیونکہ یہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حالیہ دنوں میں بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد دو گنی ہوچکی ہے،انہوں نے کہا کہ تاج بی بی کے قتل کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی جلد کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے کریگی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنی آواز اٹھائیں اور جدوجہد کا حصہ بنیں ، بلوچ یکجہتی کمیٹی روز اول سے بلوچستاں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف آواز اٹھاتی رہی ہے۔دریں اثناء بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ہم اپنے طلباء کا ہر میدان میں اور ہر مسئلے میں سر فہرست رہ کر ساتھ دیں گے، کیونکہ کسی بھی قوم کی ترقی کا ضامن اس قوم کا علم و ادب سے سرشار نوجوان ہوتا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے جس طرح کا رویہ ہمارے طلباء کے ساتھ کیا جا رہا ہے یہ ایک انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے۔ جہاں ہمارے طلباء کو کسی مجرم کی صورت ہاکی اسٹک اور دوسرے آلات سے مارا پیٹا گیا اور ان کے مطالبات سننے کے بجائے انہیں گرفتار کیا گیا، گرفتار طلباء میں 75 سے 80 طلباء ابھی تک گرفتار ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان جیسے خطے میں آن لائن امتحان لینا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے اور اس بات سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا، اگر آن لائن امتحانات ہوتے ہیں تو بیشتر طلباء اس ٹیسٹ میں بہتر طریقے سے اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ طلباء کے مطابق ان کے احتجاجی مظاہرے کے اہم مسائل میں آن لائن امتحانات سے انکار جس کی صورتحال بلوچستان میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور دوسرا بنیادی مسئلہ بلوچستان کے نظامِ تعلیم کو دیکھتے ہوئے 50 مارکس کا پاسنگ پیپر رکھا جائے اور فزیکل امتحانات لئے جائیں۔ ان مطالبات کو سننے کے بجائے جام حکومت نے حکومتی اداروں کی توسط سے پچھلے دنوں میں طلباء کے ساتھ جو رویہ اپنایا ہوا تھا وہ انتہائی رنجیدہ تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے بلوچستان کی سڑکوں پر طلباء سراپا احتجاج ہیں لیکن مجال ہے کہ جام حکومت خوابِ غفلت سے بیدار ہو۔

ان دنوں میں بلوچستان حکومت سے بھی طلباء کی ایک مختصر گفت و شنید ہوئی تھی لیکن اس کا کوئی حتمی نتیجہ نہ آسکا۔ موجود صورت حال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے جیسے کہ پچھلے دنوں میں طلباء پر شیلنگ کی گئی، ان پر تشدد کیا گیا، ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور کل کے دن پولیس کے ہاتھوں میں باقاعدہ سے ہاکی اسٹک دیکھا گیا جو طلباء پر برسائے گئے اور ایک بڑی تعداد میں ان کو جیل میں ڈالا گیا۔ بلوچستان و بلوچ قوم کے معمار اور روشن مستقبل کی نوید ہمارے طلباء جو سڑکوں پر اپنے مطالبات کے لئے کئی دنوں سے سردی گرمی نہ دیکھتے ہوئے اپنے مطالبات کی خاطر بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن! طلباء کو بے بسی اور لاچاری کے سواء اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔بیان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومتِ بلوچستان بشمول حکومتِ پاکستان طلباء کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیکر ان کے مطالبات کو حل کرنے کی کوشش کرے ۔