|

وقتِ اشاعت :   September 25 – 2021

میاں محمد نواز شریف کو جب نااہل کرکے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تو میاں صاحب نے ” ووٹ کو عزت دو ” سلوگن کو متعارف کرایا۔ ن لیگ کی جانب سے ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات منعقد کئے گئے، میاں محمد نواز شریف نے مقتدر حلقوں اور عدالتی نظام پر خوب تنقید کی اور اپنی نااہلی کا اپنی کارکردگی کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے ایک ایسا جملہ دہرایا جو مقبول رہی کہ ” مجھے کیوں نکالا”۔

تقریبا ًہر عوامی اجتماع میں اس جملے کو دہرایا گیا اور میاں نواز شریف نے اپنی نااہلی کو ملی بھگت اور ایک سازش قرار دیا کہ طاقتور قوتوں کے دبائو کی وجہ سے مجھے منصب سے ہٹایا گیا اور انہوں نے یہ عہد کیا کہ ” ووٹ کو عزت دو ” کی تحریک اس وقت تک جاری رہے گی۔

جب تک مقتدر حلقے سیاست میں مداخلت بندنہیں کرینگے اور منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے اور آئین و قانون کی مکمل بالادستی یقینی نہیں ہوجاتی۔ ماضی کے تلخ حقائق ہماری تاریخ کا حصہ ہیں انہیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا کہ میاں صاحب نے منتخب وزیراعلیٰ اور حکومتوں کی رخصتی پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہوئے مثبت تبدیلی کے بیانات دیئے اور یہ سلسلہ آخری دور جب پیپلز پارٹی کا تھا اس وقت تک میاں نواز شریف اپنے اسی سیاسی رویہ سے جڑے رہے۔

مشرف دور کے مارشل لاء کے بعد پھر ن لیگ اپوزیشنمیں آگئی اور میثاق جمہوریت بینظیر بھٹو کے ساتھ بنایا، اتنی کمزور اپوزیشن اتحاد تھی کہ اپنے ہی معاہدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے مشرف کے کرائے گئے عام انتخابات میں حصہ لیا اور پنجاب میں حکومت بنائی، جبکہ پیپلز پارٹی نے مرکز سمیت تینوں صوبوں میں مخلوط حکومت بنائی۔ یہ دور بھی اپنی نوعیت کا ایک الگ تاریخی حصہ رہا جب ن لیگ کے مرکزی قائدین پیپلز پارٹی کے قائدین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور بدترین مخالفت کی سیاست جاری رہی جس کا بنیادی مقصد حصول اقتدار تھا، اصولی سیاست ،پارلیمان اور آئین کی بالادستی نہیں تھی۔

بہرحال اس عمل میں صرف ن لیگ نہیں بلکہ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں اسی ٹریک پر ہی گامزن رہیں بعدازاں آخری وقت میں ن لیگ نے پھر ایک بار گرینڈ اپوزیشن الائنس کی تشکیل میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی تشکیل میں سب سے زیادہ سرگرم رہی ، اس دوران پیپلز پارٹی اور ن لیگ قریب آئے۔ اسی فورم کے ذریعے پھر عہد کیا گیا کہ حکومتی خاتمے تک پی ڈی ایم بھرپور طریقے سے مزاحمتی سیاست اور ” ووٹ کو عزت دو ” کی تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی لیکن سینیٹ الیکشن نے پی ڈی ایم کی ہوا نکال دی۔ جب سیاسی مفادات آڑے آگئے اور اس طرح پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر گیا گوکہ مریم نواز نے والد کی خلاء کو پر تو کیا مگر ن لیگ درون خانہ دو دھڑوں میںبٹ گئی اورشہباز شریف اور نواز شریف حلقے سامنے آئے۔

خیر اب ن لیگ کی جانب سے خاص کر شہباز شریف کام کو عزت دو کا سلوگن لائے ہیں اور یہ کتنا موثر ہے سب ہی جانتے ہیں اس کے مقاصد بھی ڈھکے چھپے نہیں بلکہ مفاہمتی اور نرم پالیسی کے ساتھ مقتدرہ کے ساتھ دوبارہ تعلقات کو بحال کرنا ہے تاکہ ن لیگ کیلئے ریلیف کا بندوبست کیا جاسکے یہاں تک کہ نواز شریف کو بھی اس سے مستفید کرایا جاسکے۔ بیشک ن لیگ ان باتوں کی تردید کرے مگر حقائق سب کے علم میں ہیں کہ ن لیگ سیاسی معاملات کو مقتدر حلقوں کے ساتھ بحال کرنا چاہتا ہے تاکہ پیپلز پارٹی کو زیر کیا جاسکے جس کا مقصد حصول اقتدار ہی ہے اس لئے کام کو عزت دو سلوگن پر کام کیا جارہا ہے تاکہ درمیانہ راستہ ن لیگ کیلئے نکالا جاسکے اور معاملات طے ہوجائیں تاکہ عام انتخابات میں انہیں بغیر رکاوٹ اور آسانی کے ساتھ اقتدار مل سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کس کو عزت دینگے یوٹرن تو لیا جارہا ہے مگر اس کے اثرات مستقبل میں ن لیگ پر پڑینگے جو اس کیلئے رعایت اور مشکلات دونوں کا باعث بن سکتا ہے۔