|

وقتِ اشاعت :   October 1 – 2021

طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحامیں ہونے والے امن معاہدے کے دستاویزات آج بھی ریکارڈپر موجود ہیں کہ امریکہ میں کس کی حکومت تھی اور کس نے ملابرادران کے ساتھ خود براہ راست مذاکرات کے عمل کو مسلسل آگے بڑھایا جبکہ افغانستان میں موجود اشرف غنی حکومت دوحا امن معاہدے میں کسی طور فریق کی صورت شامل نہیں رہی کیونکہ اشرف غنی کی حکومت مکمل مطمئن اور تسلی میں تھی کہ امریکہ اپنا مکمل آشیرباد آخر تک ان کے ساتھ رکھے گا۔

مگر جوبائیڈن جب امریکی صدر منتخب ہوگئے تو امریکی پالیسی میں بہت واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی کہ امریکہ اور نیٹو افواج کی یکدم سے تیزی کے ساتھ انخلاء شروع ہوگئی جس نے سب کو حیران کردیا کہ ایک جانب عالمی قوتوں کی انخلاء ہورہی ہے تو دوسری جانب طالبان تیزی کے ساتھ پیش قدمی کررہے ہیں جبکہ امریکہ اور نیٹو نے کوئی بھی مزاحمت نہیں کی بلکہ افغان فورسز نے بھی کسی طرح کی مزاحمتی پالیسی نہیں اپنائی۔

امریکی حکام نے انخلاء کو اس جواز کے ساتھ پیش کیا کہ اب ہم مزید اپنی معیشت اور طاقت کو افغانستان میں صرف نہیں کرسکتے کیونکہ طویل جنگ سے امریکی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے جبکہ امریکہ نے اپنے اہداف القاعدہ کے خاتمے کے ساتھ حاصل کرلئے ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ری پبلکن حکومت کے دور میں دوحا امن معاہدہ ہوا اور اس میں افغانستان میںسے کس فریق کو زیادہ اہمیت دی گئی، اس تمام عمل کے باوجود اب ری پبلکن جوامریکہ میں اپوزیشن میں ہے اس کی جانب سے امریکی سینیٹ میں افغانستان سے متعلق بل پیش کیا گیا جس میں طالبان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے سینیٹر جم ریش اوردیگر 20 ساتھیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کیلئے انسداد دہشت گردی۔

نگرانی اور احتساب بل پیش کیا۔ری پبلکن سینیٹرز کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ طالبان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور پاکستان سمیت طالبان کو مدد دینے والی ریاستوں اور غیر ریاستی افرادکی نشاندہی کی جائے، کن ممالک نے طالبان کاساتھ دیا یا کس قسم کی مدد فراہم کی۔بل میں سوال کیا گیا ہے کہ پاکستان سمیت کن ممالک نے طالبان کو سفارتی، معاشی اور سکیورٹی مدد فراہم کی؟ جائزہ لیاجائے کہ سال 2001 سے 2020ء تک پاکستانی حکومت نے طالبان کی کیسے مدد کی؟ طالبان کو پناہ گاہیں، ٹریننگ اورمنصوبہ بندی سمیت کیا امداد دی گئی۔بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ طالبان کے قبضہ کرنے میں پاکستان سمیت کون سے ریاستی اور غیر ریاستی کردارشامل تھے۔بل میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کی شرائط پوری نہیں کیں جبکہ بل پاس ہونے کی صورت میں 3 ماہ میں افغانستان پر رپورٹ پیش کی جائے گی۔

امریکی سینیٹرز کے بل میں افغانستان پر خصوصی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ٹاسک فورس کو افغانستان میں رہ جانے والے امریکی شہریوں اور اتحادیوں کے انخلاء کا بندوبست کرنیکی ہدایت کی گئی ہے۔بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر طالبان پر پابندیاں لگائی جائیں اور افغانستان میں انسداد دہشت گردی کیلئے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔سینیٹرجم ریش کا کہنا تھا کہ طالبان کے طاقت میں آنے سے القاعدہ اور داعش افغانستان میں مضبوط ہوسکتی ہیں۔بہرحال اس بل کی اہمیت محض امریکی اپوزیشن جماعت کی جوبائیڈن حکومت پر دباؤبرقرار رکھنے تک ہے اس کا کوئی خاص اثر پڑنے کے امکانات نہیں ہیں اس کی وجہ مندرجہ بالاسطور میں واضح ہے کہ ٹرمپ حکومت نے ہی طالبان کو مضبوط فریق کی حیثیت سے ترجیح دی۔

مگر پاکستان میں حکمران محض چند ایک ٹوئٹ سے عالمی معاملات کو غیرسنجیدگی سے نہ لیں کیونکہ اس بل کے آنے سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتکاری بہت کمزور ہے اور کسی طرح بھی عالمی طاقتوں کو اپنے ساتھ رابطے میں نہیں رکھا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر لابنگ مضبوط طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ لہٰذا حکمران اوراپوزیشن اندرون خانہ کشیدگی کو کم کرتے ہوئے ملک کے مستقبل پر توجہ دیں، ایک تو کمزور اور لاغر معیشت کے ساتھ ملک چل رہا ہے اور ملک اس قدرمقروض ہوچکا ہے کہ اسے چلانے کیلئے مزید قرضے لینے پڑرہے ہیں اور پھر سود کی صورت میں زیادہ رقم دینا پڑرہاہے۔

عالمی قرضوں تلے ملک دب چکا ہے عوام بے حال اور انتہائی کمزورمعاشی حالت میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اس لئے معاشی وسفارتی معاملات کو جب تک عالمی سطح پر بہتر نہیں بنایاجائے گا مختلف فورمز کے ذریعے پاکستان پر کچھ قوتیں اپنا دباؤ بڑھانے کی کوشش کرینگی یہ اب ملک کی بڑی سیاسی جماعتوںکو سوچنا ہے کہ ملک کو کس ڈگر پر لیکر چلنا ہے کشیدگی یا پھر ملک کے وسیع ترمفاد میں مشترکہ طور پر بہتر پالیسی کے ذریعے ملک کو بحرانات اور بیرونی دباؤا ورچیلنجز سے نکالنا ہے۔