لیجنڈ اداکار،کامیڈین اور اسٹیج کے بے تاج بادشاہ عمر شریف جرمنی کے اسپتال میں انتقال کر گئے۔عمر شریف کو علاج کے لیے 28 ستمبر کو کراچی سے ایئر ایمبولینس کے ذریعے امریکہ روانہ کیا گیا تھا۔ ایئر ایمبولینس نے شیڈول کے مطابق جرمنی میں مختصر قیام کرنا تھا اور ری فیولنگ کرانا تھی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق طویل فضائی سفر کی وجہ سے عمر شریف نہ صرف تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے بلکہ انہیں ہلکا بخار بھی ہو گیا تھا۔عمر شریف کو بخار اور تھکاوٹ کے باعث جرمنی کے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔جرمنی میں ڈائیلیسز کے دوران عمر شریف کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔جرمنی میں پاکستانی سفارتخانے نے عمر شریف کے انتقال کی تصدیق کردی ہے،جرمنی میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل زاہد حسین اسپتال میں انتظامات دیکھ رہے ہیں۔
امریکا کے جارج واشنگٹن یونیورسٹی اسپتال میں عمر شریف کی سرجری کے تمام تر انتظامات مکمل تھے، جرمنی میں موجود ڈاکٹروں سے مسلسل رابطے میں تھے۔کامیڈی کے سپر اسٹار عمر شریف 19 اپریل 1955 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے۔پاکستان کے اس فنکار نے 14 سال کی عمر سے اسٹیج اداکاری شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیڈی کی دنیا کے کنگ بن گئے۔ انہوں نے کامیڈی کا جومنفرد ٹرینڈ متعارف کرایا اُس میں عوامی لہجہ، انداز اور روزمرہ کے واقعات کا مزاحیہ تجزیہ شامل رہا۔1980ء میں پہلی بار انہوں نے آڈیو کیسٹ سے اپنے ڈرامے ریلیز کیے۔عمر شریف کی اداکاری سے بے ساختہ قہقہوں کا طوفان سا آجاتا تھا۔ ٹی وی، اسٹیج ایکٹر، فلم ڈائریکٹر، کمپوزر، شاعر، مصنف، پروڈیوسر یہ تمام صلاحیتیں عمر شریف کی شخصیت کی پہچان بنیں۔
اسٹیج و تھیٹر کی تاریخ عمر شریف کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے نہ صرف ملک میں بلکہ بھارت سمیت دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔عمر شریف کو جنوبی ایشیاء کے کنگ آف کامیڈی کا خطاب بھی دیا گیا۔عمر شریف کو نیشنل ،نگار ،گریجویٹ سمیت صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔عمرشریف کی رحلت پر ہر آنکھ اشکبار ہے ایک ایسا فنکار جس نے اپنے فن کے ذریعے ہر وقت لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیری۔ عمرشریف نے اسٹیج شوز کے دوران بہت سے ایسے برجستہ جملے اسکرپٹ کا حصے بنائے جو ہمارے نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، ’’ہاں ہاں میں ہرن ہوں‘‘یہ جملہ ہمارے نظام کے اندر موجود تشدد سے جڑا ہوا ہے کہ کس طرح سے جرم کو پولیس قبول کرواتی ہے ۔
معروف کامیڈین کنگ نے ہر اسٹیج شو میں مختلف انداز اپنائے اور مختلف کرداروں کے ذریعے اپنے چاہنے والوں کو مسکراہٹیں دیں ، عمرشریف کا ’’بکرا قسطوں پر‘‘ اسٹیج پروگرام سب سے زیادہ مقبول ہوا مگر کسی ایک شو کا دوسرے سے موازنا ممکن نہیں ہے۔ عمرشریف ہمارے ہاں سیاست سے لیکر دیگر منفی مسائل کو اپنے اسٹیج پروگرامز کے ذریعے اجاگر کرتے تھے اور اس کے ساتھ ہی عام زندگی کے معمولات پر بھی خوب طنزیہ جملے کستے تھے۔ عمرشریف نے کراچی سے کامیڈی کا آغاز کرتے ہوئے دنیا کے بڑے اسٹیج شو زتک اپنا جوہر منوایا اور بڑی تعداد میں شاگرد بنائے جو بعدازاں شہرت کی بلندی تک پہنچے۔
بہرحال عمرشریف کے اسٹیج شوز آج بھی ہمارے معاشرے کے بہت سے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں عمر شریف ان کا تذکرہ کررہے ہیں۔عمرشریف کا خلاء کبھی پُر کیا نہیں جاسکے گا اگر کہاجائے کہ اسٹیج شو کی دنیا میں اب کوئی دوسرا عمر شریف پیدا نہیں ہوگا تو غلط نہ ہوگا۔ عمر شریف کی اداکاری کی نقالی کرتے ہوئے بھارت کے بہت سے کامیڈین انہیں اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں ، یقینا فنکار کی کوئی سرحد نہیںہوتی وہ سب کا مشترکہ سرمایہ ہوتا ہے ۔عمرشریف بھی انٹرنیشنل کامیڈین کنگ تھے اور وہ ایک سفیر کی حیثیت سے اپنے فن کے ذریعے محبت، امن اور بھائی چارہ کا پرچا رکرتے تھے ۔دعا گوہیں کہ اللہ پاک ان کے آخری منزل میں ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے، آمین’’ الوداع عظیم فنکار عمر شریف‘‘
ایک بہادر آدمی کے حوصلہ مندالفاظ۔۔۔