|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2021

تربت: نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر سابق سنیٹر میر کبیر محمد شہی نے مرکزی جنرل سیکرٹری جان محمد بلیدی اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ سرکٹ ہاؤس تربت کے ہال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک مسائلستان بن گئی ہے، بلوچستان میں شروع سے مسائل، جبر محکومیت اور آپریشن ہورہی ہے، اس حکومت کی 3 سالوں کی گندگیاں 70 سالہ گندگی سے زیادہ ہیں، بلوچستان کے اتنے ایشوز ہیں کہ ان کو ڈسکس کرنا مشکل ہے، خصوصاً مکران میں ہزاروں مسائل پیدا کیے گئے ہیں۔

وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت سب عوام اور شہریوں کے مشکلات سے بیگانہ ہیں جس کی وجہ سے پورا ملک پریشانی اور مسائل کا شکار ہے، انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی چھ ورکر کانفرنس کرچکی ہے ہر بار بارڈر ٹرید کا مسلہ سب سے زیادہ ڈسکس رہا، ہم نے اسلام آباد کو سمجھانے اور باور کرانے کی بارہا کوشش کی کہ بلوچستان میں زریعہ معاش کچھ نہیں انڈسٹری اور فیکٹریاں موجود نہیں، زمینداری ختم ہوگئی اور واٹر ٹیبل بہت کم رہ گئی ہے، بارڈر ٹریڈ عزت سے روزگار کا آخری زریعہ تھا کس پر پابندی لگائی جاچکی ہے، اسے لیگلائز کیا جائے مگر بند کرنا نہیں چاہیے، انہوں نے کہا کہ ادارے بارڈر ٹریڈ کو لیگلائیز اس لیے نہیں کرنا چاہتے کہ وہ غیر آئینی طریقہ اور کرپشن سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں، بارڈر ٹریڈ کو قانونی شکل دے کر اس سے ملنے والی ٹیکس کو کرپشن کے بطور اداروں کے بجائے سرکار کو قانونی طریقے سے دیا جائے۔

تاکہ لوگوں کا زریعہ معاش متاثر نہ ہو، سنیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بارڈر ٹریڈ بحال کرنے کی تجویز دی کیونکہ اس کی بندش سے حالات مذید خراب ہوسکتی ہیں، بے روزگاری اور حالات کی ستم ظریفی سے غیر جمہوری تحریک کو تقویت ملنے کے علاوہ چوری ڈکیتی اور جرائم میں اضافہ ہوگا، سنیٹ کی قائمہ کمیٹی نے تجویز کی حمایت کی کہ جب تک پٹرولیم پروڈکٹس کے حوالے سے جو لوگ برسر روزگار ہیں جب تک انہیں متبادل روزگار نہیں دیا جاتا یہ سلسلہ جاری رہے مگر بدقسمتی سے یہاں آئین پر عملدارمد نہیں ہوتا سنیٹ کی قائمہ کمیٹی کا فیصلہ رد کردیا گیا، انہوں نے کہا کہ اس وقت دو پاکستان قائم ہیں جس میں ایک پاکستان میں 70 فیصد سے زیادہ لوگ غربت میں ہیں، انہوں نے کہا کہ بارڈر پر صرف تین انٹری پوائنٹ کھولے گئے ہیں جن کو پرچی اور ٹوکن سے مشروط کیا گیا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ 10 پوائنٹ کھول کر ٹوکن سسٹم ختم کرکے بارڈر ٹرید کو چلنے دیا جائے اس سے 21 لاکھ گھروں کے چولہے جل رہے ہین، عمران خان نے 21 لاکھ نوکریوں کے بجائے صرف بلوچستان میں 21 لاکھ لوگوں کو روزگار سے محروم کردیا ہے، بارڈر میں ٹوکن سسٹم کی وجہ سے غریب لوگ روزگار سے محروم ہیں۔

پسند کے لوگوں کو ٹوکن دیا جارہا ہے جو صوبہ اور یہاں کہ عوام کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے، انہوں نے کہا کہ صوبہ. خصوصاً مکران میں لاء￿ اینڈ آرڈر کی صورت حال بہت خراب ہے، اغواء￿ برائے تاوان ایک بار پھر شروع کردی گئی، ہر گھر اور گلی میں شہادتیں اور قتل زور پکڑ رہی ہیں صرف ضلع پنجگور میں دو مہینے میں 32 لوگ قتل کردیے گئے، اس وقت صوبہ میں کوئی حکومت اور ریاست نظر نہیں آرہی، امن و امان انتہائی گھمبیر صورت اختیار کرگئی ہے، عام لوگ غیر محفوظ اور جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر ہیں، انہوں نے کہا کہ بلیدہ کا واقعہ افسوس ناک ہے کوئٹہ سے ٹیم آکر ایک گھر میں گھس جاتی ہے اور ایک کمسن بچے کو قتل کر کے واپس جاتی یے اور حیرت انگیز طور پر یہاں کی انتظامیہ کو اس کا علم تک نہیں ہوتا، 2013 سے پہلے صوبہ میں حالات بہت زیادہ خراب تھے، سرشام بازار بند ہوجاتے تھے، مگر ڈاکٹر مالک کی قیادت میں ڑھائی سالوں میں نیشنل پارٹی نے مثالی امن قائم کی۔

جیکب آباد سے گوادر تک سکون پیدا ہوا، پورے صوبہ میں امن قائم ہوا، باصلاحیت وزیر اعلی نے وڑنری ٹیم کے ساتھ بے لوث انداز میں کام کیا جس سے یہ سبب مکن ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہاں اب ایک پولیس ریاست بن چکی ہے، ریاست ایسے حالات میں نہیں چل سکتی، سی پیک کے نام پر مکران میں 64 ارب ڈالر کا منصوبہ لاکر کہا گیا کہ اس سے صوبہ کی قسمت بدل جائے گی مگر خوش حالی کے بجائے اس سے ہمیں زیادہ تکلیف ملی، سی پیک کے سبب گوادر کو باڑ میں بند کرنے کی کوشش کی گئی جسے سیاسی مزاحمت کے زریعے ناکام کیا، مکران اور بلوچستان میں جیو گرامی تبدیلی کی باز گشت سنی گئی اور یہ بھی سی. پیک کے ثمرات کا نتیجہ تھا، اس سے زیادہ افسوس اور کیا ہوگی کہ 46 ارب ڈالر سے مکران کو بجلی فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، 46 اراب ڈالر کے باوجود اگر نیشنل گریڈ سے مکران کو منسلک نہیں کیا جاسکتا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک اصل ترقی کہا اور کہاں لانی تھی، ڈاکٹر مالک دور میں مکران کو. نیشنل گرڈ سے ملانے کے لیے کام شروع ہوا تھا مگر حکومت ختم ہونے کے بعد پھر اسے بند کردیا گیا 64 ارب ڈالر اگر مکران کو نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں کرسکتی تو اس سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے، یہ ایک اہم مسلہ ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ مکران کو ایران سے چلنے والی بجلی کے ساتھ فوری طور پر نیشنل گرڈ سے منسلک کیا جائے، صوبہ میں لاء￿ اینڈ آرڈر کو بہتر بنایا جائے، انہوں نے کہا کہ اس وقت صوبہ میں منتخب نمائندہ حکومت کے بجائے ایک سلیکٹڈ صوبائی حکومت ہے جس کے سربراہ ایل نااہل شخص ہیں جنہوں نے اس عہدہ کو ایک مزاق بنایا ہے، انہوں نے کہا کہ ملک میں 73 سالوں سے جاری تجربہ بند کر کے عوام کو حق حکمرانی دیا جائے تو مسائل کا حل ممکن ہے، پاکستان نااہل حکمرانوں کی غلط فارن پالیسی کی وجہ سے پوری دنیا میں اکیلا رہ گیا یے، بہترین دوست بھی ساتھ چھوڑ گئے ہیں، کئی سالوں سے کوشش کے باوجود ایف اے ٹی ایف کی گرے لیسٹ سے نہیں نکل رہے، افغانستان میں بھی غلط فیصلوں کے وجہ سے ملک خصوصاً بلوچستان مذید مسائل کا شکار ہوگا، انہوں نے کہا کہ ملک میں شفاف انتخابی نظام رائج کیا جائے، اس حکومت کے پیش کردہ الیکٹرونک مشین دونمبر ہیں، الیکشن میں شفافیت کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جائے، نیشنل پارٹی اس حکومت کی الیکٹرونک ریفارم کی بھرپور مخالفت کرتی ہے، انہوں نے مذید کہا کہ ہمیں جابجا لگائے گئے چیک پوسٹوں کے حوالے سے خدشات ہیں۔

ان پر ہمارے لوگوں کا تزلیل کیا جاتا ہے، لوگوں کو چیک پوسٹوں پر گھنٹوں لائن میں لگایا کر ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جارہا ہے، اپنے گھروں سے نکلنے والے شہریوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہو، تلار چیک پوسٹ میں گاڈیاں گھنٹوں تک روک کر شہریوں کی تزلیل ہورہی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم مضبوط وفاق کے حامی ہیں مگر ایسے عمل سے ہمارے موقف کو کمزور کیا جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی پی ڈی اہم کی خالق جماعت ہے میر حاصل خان بزنجو نے اس کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا، پی ڈی ایم کا مقصد شفاف الیکشن اور اصل نمائندوں کو اسمبلی میں بھیجنا تھا،پی ڈی ایم کا مقصد کسی ایک فیملی کو اقتدار میں لانا نہیں تھا۔

گزشتہ الیکشن میں نیشنل پارٹی کو زبردستی اسمبلی سے باہر کرکے ان کے کامیاب امیدواروں کو ناکام بنایا گیا مگر یہ ٹھپہ ماری کا آخری الیکشن تھے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جام کے جانے یا قدوس کے آنے سے بلوچستان کا مسلہ حل نہیں ہوگا، پی ڈی ایم میں شامل جو پارٹیاں عدم اعتماد کے عمل حصہ ہیں وہ غلطی کررہے ہیں، جام کو طاقت ور حلقوں نے اقتدار دیا ہے اسے وہی قوتین اقتدار سے نکال سکتی ہیں، انہوں نے کہا کہ ساحل اور فشرمین کا مسلہ نیشنل پارٹی نے سب سے پہلے اٹھایا، ہم نے اس پہ تحریک چلائی اور پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی، یہ غلط پالیسیوں سے ملک ایک سیکیورٹی ریاست بن گئی ہے جب تک فلاحی ریاست میں نہیں بدل جاتی، لوگوں کو اسی طرح مشکلات کا سامنا رہے گا۔