|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2021

پاکستان میں اول روز سے اشرافیہ ہی کا راج رہا ہے کوئی ایسی حکومت نہیں رہی کہ جس میں طاقت ور طبقے نے ملک کے فیصلے نہ کئے ہوں اور آج تک یہی اشرافیہ وفاداریاں تبدیل کرکے ایک جماعت سے دوسری جماعت میں شامل ہوکر اقتدار کے مزے نہ صرف لیتا آرہاہے بلکہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹنے سمیت اداروں کا منافع اپنے ذاتی کاروبار میں لگاتے رہے ہیں ۔

پانامہ لیکس سے لے کر پنڈروابکس تک کاجائزہ لیاجائے تو اس میں یہی اشرافیہ اور ان کے رشتہ داروں کانام آرہا ہے مگر کبھی بھی شفاف احتساب نہیں کیا گیا کیونکہ نظام میں جب تک تبدیلی نہیں آئے گی کسی صورت میں ملک میں تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ گزشتہ ستر سال سے زائد عرصہ سے عوام کو یہی تسلیاں دی جارہی ہیں کہ ملک میں بہت بڑی تبدیلی لائی جائے گی جس سے غریب عوام کی زندگی بدل جائے گی مگر حکمرانوں کے یہ دعوے محض کھوکھلے اعلانات ثابت ہوئے ہیں، آج تک بڑے مافیاز پر ہاتھ نہیں ڈالاگیا سیاسی انتقام کے ذریعے مخالفین کو ضرور جیلوں میں ڈالاگیا اور اسے احتساب کانام دے کر عوام کوگمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔

یہ سلسلہ عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے کہ اداروں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال میں لایاجائے اس لئے آج تک ہمارا پارلیمانی نظام مضبوط نہیں ہوسکا ہے جہاں قانون سازی کے ذریعے ایک بہترین نظام کی تشکیل ممکن ہے صدافسوس جو قانون سازی کی جاتی ہے اس میں بھی اشرافیہ کے مفادات کو ہی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ بہرحال ہمارے یہاں نظام کی کمزوری کا پورا ملبہ عوام پر ہی گِررہا ہے ماضی سے لیکر موجودہ دور تک عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی البتہ عوام کو خوشحالی کی نوید دورغ گوئی کرتے ہوئے ضرور دی گئی ۔ یہ صرف موجودہ نہیں بلکہ ماضی کے روایات کے مطابق چلتا آرہا ہے۔ خدا کرے کہ ملک میں حقیقی تبدیلی آئے اور عوام کی زندگی میںواضح طور پر خوشحالی دکھائی دے امید اور توقع کی جاسکتی ہے جب دعوؤں کے برعکس زمینی حقائق کے مطابق ترقی ہوتا دکھائی دے۔

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے کامیاب پاکستان پروگرام کی افتتاحی تقریب کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں احساس ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے نچلے لوگوں کو تکلیف کا سامناہے،پاکستان میں سب سے کم قیمت پر ڈیزل اور پیٹرول دے رہے ہیں۔ حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ غریبوں کی تکلیف کم ہو،ملکی خوشحالی کے لیے خودکفیل ہونا ضروری ہے۔مدینہ کی ریاست فلاحی ریاست تھی ،وہاں پر لوگوں کی فلاح کے لیے کام ہوتاتھا،مہذب معاشرے میں احساس اور انسانیت سے بڑھ کرکوئی شے نہیں، ہمارے ملک میں بدقسمتی سے نظام ایلیٹ طبقے کے لیے بناہے۔ اشرافیہ نے تعلیم سے انصاف تک کے نظام سے غلط فائدہ اٹھایا۔کامیاب پاکستان پروگرام ملک میں غربت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ کیا سیاسی اشرافیہ آج اقتدار میں موجود نہیں ہے وفاق سے لیکر صوبائی حکومتوں میں وہی چہرے یاان شخصیات کے فرزندان اوررشتہ دار اقتدار کے مزے نہیں لے رہے؟ ایلیٹ کلاس اور اشرافیہ یہی طبقہ ہے۔

جو ہر وقت حکمران جماعت کے ساتھ ہوتی ہے تاکہ ان کے مفادات کو مکمل تحفظ مل سکے جبکہ قانون کی گرفت میں صرف غریب عوام ہی آتے ہیں۔ نظام کی بہتری کے لیے سب سے پہلا انقلاب سیاسی جماعتوں میں دکھائی دینا چاہئے کہ وہ اپنی صفوںسے اشرافیہ اور ایلیٹ کلاس کو باہر نکال دے مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے لیکر حکومت بنانے تک خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے پوری کرنے کے لیے یہی ایلیٹ کلاس اور اشرافیہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب تک انتخابات میں پیسہ کی ہیر پھیر ختم نہیں ہوگی کسی صورت ملک کو اشرافیہ سے چھٹکارا نہیں مل سکتا ۔ دوسری جانب عوام آج اس قدر معاشی حوالے سے مفلوج ہوچکی ہے کہ وہ اپنے دو وقت کی روٹی پوری کرنے کی تگ ودو میں لگی ہوئی ہے کیونکہ ذہنی طور پر انہوں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا ہے ۔