پانامہ، وکی اور اب پنڈرواپیپرز کے آنے کے بعد ایک نئی کلبلی مچ گئی ہے کہ سات سو پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں ہیں جنہیں خفیہ رکھا گیا تھا حالانکہ آف شور کمپنی بنانا کوئی غیر قانونی کام نہیں بلکہ دیگر ممالک میںاس کی بالکل اجازت ہے تاکہ وہ کاروبار کرسکیں اور اپنے اثاثوں کو منیج کرسکیں اور کھل کر آف شور کمپنی بنائیں مگر جب کسی کو اپنے کالے دھند کو سفید کرناپڑتا ہے تو وہ اپنے تمام ترکاروبار اور اثاثوں کو خفیہ رکھ کر کاروبار کرتاہے تاکہ اسے ٹیکس دینا نہ پڑے ،اپنے ملک سے لوٹی گئی رقم کو بیرون ملک منتقل کرکے باآسانی خفیہ طور پر اثاثے بنانے کے ساتھ کاروبار کرسکیں ۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ بڑے برج پر ہاتھ نہیں ڈالاجاتا ایک دو کیسز پر واویلا مچاکر ابتدائی طور پر کارروائی کی جاتی ہے مگر کچھ عرصے بعد مکمل خاموشی چھا جاتی ہے جس کی واضح مثال شوگراور گندم مافیاز کی مثالیں ہیں ان کو سزا اب تک نہیں ملی۔ بہرحال جن لوگوں کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں ان کے حوالے سے تحقیقات ہوں گی۔پنڈورا پیپرزمیں شوکت ترین، فیصل وائوڈا، شرجیل میمن، مونس الٰہی اور علی ڈار سمیت 700 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں ۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جن کے نام پیپرز میں آئے ہیں وہ کلیئر ہوگئے تو کارروائی نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی سیل بنادیا ہے، جو ذمہ دار قرار پائے ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کیلئے گزشتہ روز اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ٹوئٹ کرکے بتایا کہ پنڈورا لیکس کی تحقیقات کیلئے وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اعلیٰ سطح کا سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا۔اطلاعات کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے،، قومی احتساب بیورو، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور اینٹی کرپشن مشترکہ طور پر تحقیقات کریں گی۔
وزیراعظم عمران خان نے وزیر قانون کو ٹی او آرز بنانے کاہدف دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں۔تحقیقات میں پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کی آف شور کمپنی سامنے آئی جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار کے بیٹے کی آف شور کمپنی بھی پنڈورا پیپرز میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیرصنعت خسرو بختیارکے اہل خانہ کی آف شورکمپنی بھی پنڈورا پیپرزمیں سامنے آئی ہے جبکہ کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران،بینکاروں، کاروباری شخصیات اور میڈیا مالکان کی آف شورکمپنیاں بھی سامنے آئی ہیں۔وزیراعظم کی جانب سے اعلیٰ سطح کا سیل قائم تو کردیا گیا ہے مگر یہ کتنا نتیجہ خیزثابت ہوگا یہی بنیادی سوال ہے کیونکہ ماضی کی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح سے کیسز کو وقت کے ساتھ دبادیاجاتا ہے پھر سب صاف ہوکر معمول کے مطابق اپنے کام پر لگ جاتے ہیں اگر ہمارے یہاں احتساب کا دوہرا معیار نہ ہوتا تو یقینا کسی کو بھی جرات نہ ہوتی کہ وہ خفیہ طور پر غیر قانونی کام کرے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہوئے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکے۔
البتہ امید پر دنیا قائم ہے دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ سطح کاسیل کیا کارنامہ سرانجام دے گا ؟ جن پر آف شور کمپنی بنانے کے ثبوت سامنے آئینگے ان کے خلاف شفاف طریقے سے کارروائی کی جائے گی چونکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی یہی کہا ہے کہ جو بھی ملوث ہوا تو انہیں اداروں کے ہاتھ دیاجائے گا ۔ اعلیٰ سطح سیل سات سو شخصیات کے خلاف کس حد تک کارروائی کو عملی جامہ پہنائے گا اس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔