|

وقتِ اشاعت :   October 8 – 2021

کوئٹہ: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام 7اکتوبر 1983کے شہدا جمہوریت کی 38ویں برسی کے موقع پر ملک میں آئین کی بالادستی ،پارلیمنٹ کی خودمختیاری ، عدلیہ ومیڈیا کی آزادی ، ملک کی معاشی زبوحالی ، سخت ترین مہنگائی ، بدترین بیروزگاری کے عنوان کے تحت عظیم الشان سیمینار پشتونخوامیپ کے محبوب چیئرمین اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی نائب صدر محمود خان اچکزئی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

جس سے محمودخان اچکزئی ، نیشنل پارٹی کے صدر سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سنیٹر مولانا عبدالغفور حیدری ،پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین مختار خان یوسفزئی ،پاکستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر شہزادہ ذوالفقار ، بی این پی کے مرکزی نائب صدرملک عبدالولی کاکڑ، مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر جمال شاہ کاکڑ ، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل نصیب اللہ ترین ایڈووکیٹ، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے صوبائی رہنماء عصمت اللہ سالم ، قومی وطن پارٹی کے رہنماء جلیل خان بازئی، چیئرمین بین الصوبائی رابطہ کمیٹی راحب خان بلیدی ایڈووکیٹ، مرکزی انجمن تاجران کے صدر عبدالرحیم کاکڑ نے خطاب کیا ۔

جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری ورکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خا ن زیرے نے سرانجام دیئے اورتلاوت کلام پاک کی سعادت مولانا محمد ذاکرنے حاصل کی ۔ تلاوت کے بعد ہرنائی میں زلزلے کے باعث ہونیوالے شہدا کی مغفرت اور زخمیوں کی صحتیابی کیلئے اجتماعی دعا کی گئی ۔ سیمینار سے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی جانب اور اپنی تمام پارٹی کی جانب سے تمام پارٹیوں اور تنظیموں کا مشکور ہوں جنہوں نے ہماری دعوت کو قبول کرتے ہوئے اس سیمینار میں بھرپور شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک ایسے غلط دوہرائے پر کھڑا ہے کہ اس میں صحیح اور کام کی بات کرو تو بھی کسی کو قبول نہیں لیکن ہماری تربیت بھی ایسی ہوئی ہے اور ایسے مدرسے میں تعلیم پائی ہے کہ وطن پر کسی کی غلط بالادستی اور عوام پر ظلم وجبر کرنے اور حملہ آور ہونیوالوں کیخلاف لڑنا اور جدوجہد کرنا ہماری پہچان ہے اور وہ بھی دلائل اور عدم تشدد کے ذریعے اس جدوجہد کو ہمیشہ جاری رکھاہے۔ اور جب فرنگی سامراج یہاں آئے تو ہمارے اکابرین اور ہمارے غریب عوام نے ہی ان کی بالادستی کو چیلنج کیا ، 1929میں اس وقت کے برٹش بلوچستان جو 1886میں پاک وہند کا پہلا چیف کمشنر صوبہ بنا تھا اور اس میں مکمل اکثریت ان پشتون علاقوں کی تھی جو انگریز نے تیسرے انگریز افغان جنگ میں افغانستان سے کاٹے تھے پر مشتمل تھااور بعد میں کچھ بلوچ علاقے انگریز نے پٹے پر لیکر اس میں شامل کیئے ۔

کے علاقے گلستان سے تین نوجوان محمد ایوب خان اچکزئی، عبدالسلام خان اچکزئی اور عبدالصمد خان اچکزئی گرفتار ہوئے ۔ جس کی بنیادی وجہ عبدالصمد خان اچکزئی کی اپنے مسجد میں قرآن مجید کا ترجمہ کرکے لوگوں کے سامنے بیان کرنا تھااور وہ اپنے حالات زندگی میں لکھتے ہیں کہ میرا کوئی سیاسی استاد نہیں تھا اور یہ میرے اپنے وجود کے اندر کی روشنی تھی کہ ہماری ملت کی تباہی وبربادی کی وجہ خارجی انگریزکی حکمرانی ہے ۔

اور اس سے نجات حاصل کیئے بغیر ترقی وخوشحالی ممکن نہیںاور اس گرفتاری کے خلاف مولوی خیر محمد کی سربراہی میں قبائلی افراد نے پہلی سیاسی اغواء کیا جس میں دو فوجی انگریز آفیسر اور ایک خاتون شامل تھی۔ اور اسی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے سردار یوسف عزیز مگسی ، عبدالرحمن بگٹی ، عبدالعزیز کرد ، جام نور اللہ سمیت مختلف لوگ شامل ہوئے پھر انجمن وطن کا قیام اور استقلال اخبار کا اجراء ہوا اور یہ جدوجہد ایسے گھمبیر حالات میں آگے بڑھا جب فرنگی سامراج کے کیخلاف بولنے والا کوئی نہیں تھا اور ان سب کے باوجود اب بھی ہمیں انتہائی غلط الفاظ سے یاد کیاجاتا ہے اور بے سروپا الزامات عائدکرکے تاریخ اور حقائق کو مسخ کیا جاتا ہے لیکن ہم نے اس وطن اور اس کی مٹی سے محبت کی ہے اور اس پر کوئی سودا بازی کسی بھی صورت نہیں کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے اور شاعر کہتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ مصر کے بادشاہ ہوتے ہوئے اپنے گائوں کنعان کو یاد کرتے ہوئے ان کے فقیر ہونے پر ترجیح دیتا تھا ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان بھی ہمارا وطن ہے اور پاکستان تب ہی زندہ آباد ہوگا جس میں قوموں کی برابری پر ایسے فیڈریشن کی تشکیل ہو جس میں پشتون بلوچ سندھی سرائیکی اور پنجابی اقوام کو اپنے وسائل پر واک واختیار حاصل ہو ، آئین کی حکمرانی ہو ، پارلیمنٹ کی بالادستی ہو اور ملک کے خارجہ وداخلہ پالیسیاں منتخب پارلیمنٹ کے تابع ہو اور ہر ادارہ آئین کے دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتی ہو جبکہ آج ملک یک وتنہا ہے اور ہم اس ملک اور خطے کو کسی سیاستدان ، جرنیل ، مُلا اور صحافی کے کہنے پر جنگ میں دھکیلنے نہیں دینگے بلکہ ہرصورت اس کو بچائیںگے۔

انہو ںنے پی ڈی ایم کے بننے کے وقت چارٹر کے بنیادی نکات سیمینار میں پڑھتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کے اس اعلامیہ کو بنیاد بناکر جمہوری جدوجہد کے ذریعے ہی ملک کو تمام بحرانوں سے نجات دلایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے 7اکتوبر 1983کے شہدا کے سانحہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کے رہنماء ممتاز عالم دین مولانا امروٹی نے ضیائی مارشلاء کے نظر بندی کے باوجود سندھ سے کوئٹہ آکر سریاب کے ایک مدرسے میں ملاقات کیاور کہا کہ ضیائی مارشلاء کے حکام سندھ کے عوام پر غیروں کے ایجنٹ کے بے بنیاد الزامات لگاکر قتل کررہے ہیں ہمیں آپ سے آواز بلند کرنے کی امید ہے اور اس کے بعد کوئٹہ میں تاریخی مظاہرہ اور جلوس ہوا جس میں چار کارکن شہید ہوئے ۔ میں تمام سیاسی جمہوری پارٹیوں اور تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں اور ان سب نے وعدہ کرنا ہوگا کہ اس جمہوری جدوجہد کی کامیابی کے بعد پہلا کام یہ ہوگا کہ ہر مارشلاء میں جن جج صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا اور اپنے بچوں کا رزق کا ذریعہ کھوکر گمنامی میں چلے گئے ان سب کو جمہوریت کے ہیروز قرار دیکر ان کی اولادوںکی مالی مدد کی جائیگی۔

اور ان سیاسی رہنمائوں وکارکنوں کو بھی جمہوریت کے ہیروز قرار دیئے جائینگے جنہو ںنے حقیقی جمہوریت کی بحالی کی راہ میں کوڑے کھائیں اور قربانیاں دیں۔ اورحقیقی جمہوریت کے قیام کی راہ میں شہید ہونیوالے شہدا کو جمہوریت کے شہدا اور ہیروز قرار دیئے جائینگے اور ان کے خاندانوں کی امداد اور احترام دیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام سیاسی جمہوری قوتوں سے پھر اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ ملک خطرناک حالات کا سامنا کررہا ہے اور بدترین مہنگائی وبیروزگاری نے غریب عوام سے دو وقت کی روٹی چھین لی ہے اور غریب مزدور کو سارا دن سارا ہفتہ مزدوری نہیں ملتی ۔اور عوام کی اس مکمل اکثریت کی بدترین غربت کسی بھی وقت انہیں سخت احتجاج پر مجبور کرسکتی ہے۔ اور کوئی انسان جب اپنے معصوم بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کابندوبست نہیں کرسکتا اور بازار میں دکانیں اشیاء خوردوونوش سے بھری پڑی ہوئی ہو تو مجبوری میں انسان سب کچھ کرجاتا ہے۔

اس سنگین حالات میں سیاسی جماعتوں ،صحافیوں ، وکلاء ، طلباء ،تاجروں سمیت سب نے ملکر عوام کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ دو ہفتے قبل انڈیا میں دنیا کے اہم ممالک کے جاسوسی اداروں کے سربراہ ملکر بیٹھے اجلاس منعقد کیا اور اس میں سے ایک نے پاکستان آکر ہمارے ملک کے انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ اور آرمی چیف سے ملکر چلے گئے پھر ہمارے ملک میں روس ،چین ،ازبکستان ،تاجکستان ودیگر کے جاسوسی اداروں کے سربراہ بیٹھے اجلاس منعقد کیا اور چلے گئے لیکن ملک میں کسی کو پتہ نہیں۔ پارلیمنٹ کو پتہ نہیں کہ اس سرگرمی کی وجوہات کیا تھیں۔ اور اس کے ہمارے ملک پر کیا اثرات ہونگے۔

انہو ںنے کہا کہ چین اور روس نے افغانستان کے موجودہ حالات میں بھی اپنے سفارت خانے بند نہیں کیئے اور روسی سفیر نے کہا ہے کہ کابل اب زیادہ محفوظ ہے لیکن یہ بات ضروری اور لازمی ہے کہ افغانستان ایک آزاد اور خودمختیار ملک ہے روس ، چین سیکورٹی کونسل کے دیگر ارکان نے بھی افغانستان کی آزادی اور خودمختیاری کو عملاً یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے بعد افغان عوام طالبان کے ساتھ بیٹھ کر اپنے آئندہ کا انتظام کرسکتے ہیںاور طالبان سے کہہ سکتے ہیں کہ زور اور زبردستی کہ ذریعے اقتدار پر قابض ہونے کی ریت بربادی کا راستہ ہے اور یہ آپ کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہے ۔اس لیئے ایک ایسے نمائندہ حکومت کا قیام جس میں افغان عوام کے تمام طبقات اور سیاسی قوتوں کی نمائندگی حاصل ہو اور جمہوری راستے پر گامزن ہو آزاد ،خودمختیار ،بہتر اور خوشحال اور پرامن افغانستان کا روشن مستقبل بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان ہمارا ملک ہے اس ملک اور اس کے کسی بھی ادارے کو کمزور نہیں ہونے دینگے اور ہر ایک نے یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ کسی نے بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ علی وزیر قومی اسمبلی کے رکن ہے اور ضمانت پر رہائی اس کا قانونی حق ہے اور اس کے باوجود اگر انہیں رہا نہیں کیا جاتا تو ہم سب کو مجبوراً احتجاج کی راہ اپنانی ہوگی۔

نیشنل پارٹی کے صدر سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں 7اکتوبر کے شہدا اور ان تمام شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہو ںنے اپنے مادر وطن کی دفاع اور انسانی اقدار کیلئے قربانیاں دیں اور ان شہدا کی قربانیوں سے ان جابر حکمرانوں کے کرتوت واضح ہوگئے کہ ہماری قومی اور جمہوری تحریکوں نے اس ملک میں پہلے دن سے عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کرانے کیلئے مسلسل قربانیوں سے لبریز جدوجہد کی ہے اور ہمارے اکابرین نے سالہا سال قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی اور ان قومی او رجمہوری تحریکوں کے رہنمائوں وکارکنوں نے تاریخ ساز قربانیاں دیں لیکن وہ زور آورکے سامنے سرتسلیم خم نہیں ہوئے۔ انہو ںنے کہا کہ یہ ملک کثیر القومی ملک ہے قوموں کے حقوق واختیارات اور ان کے وسائل دینے ہونگے ،مضبوط پاکستان اور مضبوط معیشت چاہتے ہیں تو قومی اور جمہوری سوال کو لازماً حل کرنا ہوگا ۔آج ملک میںتمام عوام ، صحافیوں ، طلباء ، مزدوروں ، ڈاکٹروں ،تاجروں سمیت ہر شعبہ زندگی کے عوام پر بدترین حالت مسلط کی گئی ہے اور تمام عوام کو ہر شعبہ زندگی میں سنگین صورتحال کا سامنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پشتونخوامیپ کے عہدیدار اور کارکن خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے پیروکار ہیں انہوں نے کبھی کسی زور آور کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا آ پ نے بھی زور آور کے سامنے سرنڈر نہیں ہونا ہے ۔ ہم اور آپ جو خان شہید ، غوث بخش بزنجو اور مفتی محمود مرحوم کے پیروکار ہیں توہمیں انہی کی طرح اپنی جدوجہد کو آگے لیجانا ہوگا۔ آج بھی بلوچستان میں معصوم عوام شہید ہورہے ہیں ،مسنگ پرسن کی بات نہیں سنی جارہی ہے لیکن حکمرانوں کو ان تمام مسائل پر بات کرنی ہوگی اور ہم اپنی سیاسی جمہوری وطن دوست جدوجہد پریقین رکھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوگااور ان شہدا کو سلام پیش کرتا ہوں اور ہمیں اور آپ کو ان کے نقش قدم پر چل کر استحصالی قوتوں سے نجات پانے کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سنیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے پشتونخوامیپ اور ان کے سربراہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ان شہدا کی یاد کو تازہ کیا جنہوں نے 7اکتوبر 1983کو جان ہتھیلی پر رکھ کر جمہوریت کے لئے جام شہادت نوش کی ۔انہو ںنے کہا کہ بلوچستان میں شہدا کی تاریخ طویل ہے جس میں بہت سے رہنماء اور کارکن بھی موجود ہیں خان شہید مولوی شمس الدین سمیت لاتعداد ایسے رہنماء اور کارکن شہدا کی تاریخ بہت طویل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان لا الا (کلمہ ) کے نام پر بنا لوگوں نے اس ملک کی خاطر سب کچھ چھوڑا لیکن عوام کو اسلام نہیں بنا تو جمہوریت کی راستے پر اس لئے چل پڑے کہ عوام کو کچھ حقوق واختیارات ملیں گے لیکن وہ بھی نہیں ملیں۔ مسلسل مارشلائوں نے عوام کی حق حکمرانی کو غصب رکھا اور اس ملک میں 26سال تک آئین ہی بننے نہیں دیا گیا ۔

ہر جرنیل اور آمر اپنے ہی قوانین لاتے رہے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران کوئٹہ میں میری رضاکارانہ گرفتاری کے بعد ملٹری عدالت میں پیش کیا گیا تو پوچھا گیا کہ کیوں گرفتاری دی تو اس پر میں نے کہا کہ ہم آپ کی حکومت اور موجودگی کو نہیں مانتے آپ مجھ سے بیان لینا چاہتے ہیں ؟ میرے بیان کے انکار پر ایک سال قید اور 10کوڑوں کی سزا سنائی گئی ۔ ایسے واقعات سیاسی جمہوری قوتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کے ساتھ مسلسل ہوتے رہے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں نے جمہوریت آئین کی حکمرانی ،پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے ہمیشہ جدوجہد کی ہے ۔

پی ڈی ایم کی قیادت پہلے روز سے کہہ رہی ہے کہ بڑی دھاندلی ہوئی ہے اور ہم پر ایک سلیکٹڈ حکومت مسلط کیا گیا ہے اور اس کیخلاف روز اول سے جلسے وجلوس کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کو دوام دیا ہے اور عوام کو منظم کرتے ہوئے اسے شعور دیا ہے جبکہ اس حکومت کے وہ نعرے تمام فریب ثابت ہوئے کہ ایک کروڑ نوکریاں ، پچاس لاکھ گھر ، ڈالر کو 60روپے تک لائینگے اور معیشت کو مضبوط کرکے آگے لیجائینگے لیکن ان میں سے کسی بھی نعرے پر عمل نہیں ہوا اور آئی ایم ایف میں جانے سے انکار وزیر اعظم نے سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ سمیت سب کچھ آئی ایم ایف کے حوالے کردیا وہ بڑے دعوے کررہا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بجائے خودکشی بہتر ہوگی اب اسے کون سمجھائیں کہ خودکشی کا وعدہ کہا گیا ۔تمام ملک میں بدترین آمریت اور پستائیت مسلط ہے اپوزیشن کی قیادت سمیت تمام حقیقی جمہوری لوگوں کے بیانات پر پابندی ہیں اور زندگی کر ہر شعبہ روبہ زوال ہے اور اس سنگین صورتحال سے نجات پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جاری جدوجہد کو مزید منظم اور تیز کرنے میں ہیں۔