افغانستان کی موجودہ حکومت اور دیگرتمام تر معاملات پرامریکہ اور اس کے اتحادی ایک پیج پر نظر آرہے ہیں جب سے طالبان نے افغانستان کی بھاگ ڈور سنبھالی ہے دنیا کے بیشتر ممالک کی جانب سے کسی طرح کا بھی مثبت بیان تعلقات کے متعلق نہیں دیا گیا البتہ تنقیداور طرز حکمرانی پر ضرور بیانات سامنے آئے ہیں ۔ابتدائی دنوں میں ہی امریکہ اور ورلڈ بینک نے اکاؤنٹ منجمد کرنے کے ساتھ کسی طرح کا مالی امداد نہ کرنے کا واضح پیغام دیا۔
جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان حکومت کو فی الوقت دنیا قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس وقت تمام عالمی قوتوں کی نظریں افغانستان کی صورتحال پر لگی ہوئی ہیں کہ طالبان اپنے نظام ، اصلاحات سمیت دیگر معاملات کے متعلق مستقبل کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں البتہ طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان میں نظام حکومت کے متعلق بیان آچکا ہے جو ماضی میں طالبان حکومت کا افغانستان میں رہا ہے مگر اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی پالیسی کیا ہونی چاہئے یقینا دنیا سے الگ ہوکر مزید بحرانات اور نئی دشمنیاںمول نہیں لے سکتے ،موجودہ حالات میں پاکستان پہلے سے ہی مشکلات کا شکار ہے اور اس وقت پاکستان کی جانب سے یہی کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کو استوار کرتے ہوئے سفارتی، تجارتی تعلقات بنائے جائیں تاکہ درپیش معاشی بحران سمیت دیگر چیلنجز سے نکلاجاسکے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں مسلح افواج کے سربراہان، وفاقی وزراء اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سمیت دیگر خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں افغانستان ، ملکی داخلی اوربیرونی سیکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اجلاس میں شرکا ء کو افغانستان کی موجودہ صورتحال اوراس کے پاکستان پراثرات سمیت خطے کی سیکیورٹی کی صورتحال پربریفنگ دی گئی۔وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں حکومتی کوششوں کوہم آہنگ کرنے کیلئے خصوصی سیل قائم کرنے کی ہدایت کی۔سیل افغانستان کے لیے انسانی امداد کے لیے عالمی روابط میں کردار ادا کرنے کے ساتھ مؤثر بارڈرمینجمنٹ اور کسی بھی قسم کی منفی سرگرمیوں کے پھیلائو کو روکنے کے لیے کام کرے گا۔شرکاء نے افغانستان میں سنگین انسانی صورتحال پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ عالمی برادری افغانستان کوانسانی بحران سے بچانے کیلئے تعاون کرے۔افغانستان میں جامع سیاسی اور معاشی نظام کیلئے عبوری حکومت کو دنیا کی مدد کی ضرورت ہے۔اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان پُرامن،مستحکم اور خودمختار افغانستان چاہتا ہے۔ خطے میں ابھرتی ہوئی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے۔افغانستان میں کسی بھی عدم استحکام کے پاکستان کے لیے شدید مضمرات ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے افغانستان کی صورتحال سے متعلق مربوط پالیسی کوششوں کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے افغانستان سے انخلاء کی بین الاقوامی کوششوں میں پاکستان کی حمایت پر اطمینان کا اظہار کیا۔بہرحال اس بات کوکسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ غیر مستحکم افغانستان خطے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا اور پاکستان تو براہ راست افغانستان کے حالات سے متاثر ہوگا یقینا سیکیورٹی معاملات سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ روابط طالبان حکومت کے ہونے ضروری ہیں جو پاکستان سمیت خطے کے وسیع تر مفاد میں ہوگا مگر سب سے پہلے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ پاکستان کے عالمی سطح پر تعلقات مضبوط ہوں۔ اس پہلو کو قطعاََ نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ دنیا افغانستان کے معاملات میں پاکستان کو بطور اتحادی اور فریق تصور کرتا ہے جوکہ غلط اور منفی رویے کی عکاس ہے مگر اس پروپیگنڈے کو زائل کرنے کے لیے سفارتی تعلقات پر زور دینے کی ضرورت ہے تاکہ اعتماد کی فضاء بحال ہوسکے جس کا فقدان اب بھی موجود ہے اس خلاء کو پُر کرنے کے بعد ہی ہم اس حیثیت میںہوں گے کہ دنیا کے ساتھ افغانستان کے مسائل پر بات کرسکیں مگر پہلی ترجیح پاکستان کو اپنے تعلقات کے حوالے سے ہونا چاہئے۔