|

وقتِ اشاعت :   October 11 – 2021

کراچی: بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ہوشاپ میں عام آبادی پر فائر ہونے والے مارٹر گولوں سے کمسن بچوں کی شہادت اور زخمی ہونے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی فورسز بلوچستان میں مسلسل اپنی حدود اور دائرہ کار سے تجاوز کرتی آرہی ہیں جس سے عام عوام جبر و تشدد کا شکار ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کل صبح بلوچستان ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے لکڑیاں چننے والی چھوٹی بچی اور ایک چھوٹے بچے پر مارٹر گولہ فائر کیا گیا جس کی نتیجے میں یہ دونوں بچے شہید ہوئے۔کل رونما والا یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا اور انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ گذشتہ کئی عرصے سے ایسے واقعات میں تسلسل کے ساتھ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اس سے قبل بھی کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جہاں ایک جانب چادر اور چار دیواری کی تسلسل کے ساتھ پامالی ہوتی رہی ہے وہیں بیچ چوراہوں پربلا امتیاز لوگوں کا قتلِ عام کیا جاتا رہا ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ برس فورسز کی جانب سے تربت کے علاقے آبسر میں طالب علم حیات بلوچ کو اُن کے والدین کے سامنے گولیوں سے چھلنی کیا گیا جبکہ اسی سال ملک ناز اور کلثوم کو تربت ہی کے علاقے میں گھروں میں قتل کیا گیا۔ اِس غیر آئینی اور غیر انسانی عمل میں جہاں ایک جانب فورسز ملوث ہیں تو دوسری جانب مسلح افراد ہیں۔ بلوچستان میں جاری اِس بربریت اور ظلم و ستم میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بغیر کسی تفریق کے شکار ہو رہے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں رونما ہونے والے ایسے واقعات اب معمول بن چکے ہیں جہاں آئے روز لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ آج سے چند ہفتہ قبل تربت ہی کے علاقے آبسر میں ضعیف العمر تاج بی بی کو گھر کا چولہا جلانے کےلیے لکڑیاں چننے کی پاداش میں قتل کیا گیا اور اب جبکہ تاج بی بی کا خون خشک نہیں ہوا تھا کہ ہوشاپ میں یہ دلخراش واقعہ پیش آیا ہے۔ بلوچستان میں جاری ایسے واقعات کو معمول کی شکل اختیار کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ بلوچستان میں بلوچوں کی نسل کشی شدت کے ساتھ جاری ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچستان میں اس طرح سے بلوچ قوم کی نسل کشی کو بند کیا جائے اور فورسز ہوش کے ناخن لیں اور جس ذمہ داری کے لیے فورسز بنائی گئی ہیں وہ ذمہ داری سرانجام دیں بصورت دیگر ہم اب احتجاجی مظاہروں کی جانب نہیں بلکہ دھرنے کی جانب جا سکتے ہیں۔