ملک میں مہنگائی کی شرح بہت زیادہ بڑھتی جارہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف کے شرائط ہیں یقینا جو قرض دیتا ہے اس کے فیصلوں کے تابع تو رہنا ہی پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف نے گزشتہ روز ایک بات واضح کردی تھی کہ وہ اپنے اہداف سے پیچھے نہیں ہٹے گی بلکہ ڈومور کے واضح اشارہ بھی دیدیئے۔ چونکہ ہماری معیشت اس وقت قرضوں کی بنیاد پر چل رہی ہے مگر اس بات کا کھل کر اظہار حکومت کی جانب سے نہیں کیا جاتا بلکہ ہر بار آنے والے چند روز کو معاشی ترقی سے جوڑدیاجاتا ہے۔
حقائق پر پردہ ڈالنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ملکی معاشی حالات سے عوام بھی آگاہ ہیں کہ وہ کس طرح سے اپنی زندگی کی گاڑی کو چلار ہے ہیں ۔ بہرحال پہلے ہمارے یہاں ملکی سروے کو من گھڑت اور پروپیگنڈہ کہاجاتا تھا اب عالمی سطح پرمعاشی رپورٹ شائع کرنے والے اداروں کے بھی اعداد وشمار کو تسلیم کرنے سے حکومت انکاری ہے۔ گزشتہ روز وزارت خزانہ نے معاشی ترقی کے بارے میں عالمی بینک کے تخمینے کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی بینک کا موجودہ مالی سال معاشی شرح نمو 3.4 فیصد رہنے کا تخمینہ غلط ہے، موجودہ مالی سال پاکستان کی معیشت 5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی، جولائی میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 2.3 فیصد بہتری آئی۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گنے، چاول، مکئی اور کپاس کی فصل میں بہتری کا تخمینہ ہے، زراعت، صنعت، تجارت اور دیگر شعبوں میں مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں جب کہ تعمیراتی شعبے کیلئے مراعات صنعتی ترقی کا باعث بنیں گی۔اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ سی پیک کے تحت اقدامات اور مراعاتی پیکج سے صنعتی سرگرمیاں تیز ہورہی ہیں جب کہ کورونا ویکسی نیشن کے کامیاب پروگرام سے نجی شعبہ قدرے بحال ہوچکا ہے اور معیشت کی بحالی کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔دوسری جانب وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے موجودہ معاشی حوالے سے کہاکہ پاکستان کی معاشی مشکلات زرداری اورنواز شریف کے 10سال کا تحفہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 12 ارب ڈالر کا قرضہ اور سود واپس نہ کرنا ہوتا تو یہ پیسہ تیل اوربجلی کی سبسڈی میں استعمال ہوتا۔ہمیں قرضہ واپس نہ کرنا ہوتا تو دنیا میں قیمتوں میں اضافے کے رجحان سے بچ جاتے۔فوادچودھری نے کہا کہ ان تاریک 10سال کے اثرات تباہ کن ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت اور مہنگائی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ترسیلات زر، نان ٹیکس آمدنی اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ میں کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ برآمدات ،درآمدات، ایف بی آر محصولات میں اضافہ ہوا ہے۔ادارہ شماریات کے مطابق سالانہ بنیادوں پر ویجی ٹیبل گھی36.34 اور ٹماٹر35.15 فیصد مہنگا ہوا ،خوردنی تیل 33.96، مسٹرڈ آئل 33.10اور انڈے 23.68فیصد مہنگے ہوئے۔چکن 20.47 ، گوشت 13.71، اور دودھ 10.64فیصد مہنگاہوا۔ آلو، دالیں ، پیاز اور گندم 19سے 4فیصد تک سستی ہوئیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے مہنگائی ہوئی اس پر جلد قابو پالیا جائے گا۔
اس تباہ کن مہنگائی کے باوجود بھی اس بات پر تسلی دی جائے کہ سبب کچھ بہتر ہورہا ہے اور ملک میں معاشی صورتحال میں مثبت تیزی آرہی ہے اگر واقعی سب کچھ بہتری کی طرف جارہا ہے تو آئے روز پیٹرولیم مصنوعات ، بجلی کی قیمتوں میں کیونکر اضافہ کیاجارہا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ جب معیشت بہتر ہورہی ہے تو عوام کو ریلیف بھی دیا جائے مگر عوام کو فی الحال کسی طرح کی خوشخبری اس حوالے سے نہیں ملنے والی کہ اشیاء خورد ونوش سمیت دیگر چیزوں کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے بلکہ مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور عوام اس کمزور معیشت کے ساتھ گزارا کررہی ہے۔ خدا کرے کہ ملکی معیشت ترقی کرے اور قرضوں سے عوام کی جان چھوٹے مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ملک میں روپیہ کی قدر مستحکم ہو اور بیرونی سرمایہ ملک میں آسکے ،ساتھ ہی ملکی وبیرونی سرمایہ کار بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کریں تب امید کی جاسکتی ہے کہ حالات تبدیل ہورہے ہیں مگر ایسا ہونا انتہائی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔