بلوچستان میں نہ ختم ہونے والا سیاسی بحران روز ایک نیا موڑ لے رہا ہے، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ،اب تک معاملات ابہام میں ہیں۔ گزشتہ روز یہ اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ ناراض اتحادی اراکین کو اسلام آباد سے واضح پیغام دیا گیا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ بلوچستان کو ہٹانے میں کسی صورت ساتھ نہیں دینگے ۔
پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے وزیراعلیٰ بلوچستان اور اتحادیوں کے درمیان معاملات حل ہوجائیں ،اسی تسلسل میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یارمحمد رند کے ساتھ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی مختلف نشستیں لگ چکی ہیں مگر یہ بات بھی واضح ہے کہ سب سے پہلے سردار یارمحمد رند نے ہی اپنی وزارت سے استعفیٰ دے کر جام کمال خان کے خلاف علم بغاوت بلندکیا تھا اور وہ ایک واحدپی ٹی آئی کے رکن تھے۔
جنہوں نے بجٹ سیشن کے دوران بجٹ پر سخت اعتراضات اٹھائے تھے اور ساتھ ہی اپنے حلقے میں غیر منتخب نمائندگان کی مداخلت اور انہیں مسلح کرنے کے حوالے سے سنگین نوعیت کے الزامات بھی عائد کئے تھے۔ اس تمام تر صورتحال کے دوران کسی بھی حکومتی رکن نے سردار یارمحمد رند کا ساتھ نہیں دیا تھااور بجٹ سیشن کے دوران سب نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعریفوں کے پل باندھے تھے کہ بجٹ عوام دوست اور پورے بلوچستان کی ترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا، ماضی میں ایسا بجٹ پیش نہیں کیا گیا جو ہماری حکومت عوام دوست بجٹ لائی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے پوسٹ بجٹ کے دوران بھی خوب تعریف وتوصیف کی حالانکہ اس دوران صحافیوں نے بجٹ میں موجود بعض اسکیمات پر لگائی گئی رقوم کی نشاندہی وائٹ پیپرز کے ذریعے کی مگر موصوف وضاحتیں ہی دیتے رہے۔
کتنے تعجب کی بات ہے کہ آج سابق وزیرخزانہ ظہور بلیدی یہ فرمارہے ہیں کہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ بجٹ کس طرح تیار کی گئی ہے ،بہرحال قول وفعل میں تضاد واضح نظرآرہا ہے البتہ اب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی کرسی کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور مشکلات مزید بڑھ گئے ہیں کیونکہ پہلے اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی تھی جسے گورنر بلوچستان نے تکنیکی وجوہ کی بناء پر اعتراضات لگاکر مسترد کردیا تھا مگر اب بلوچستان حکومت میںشامل ناراض اراکین نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والوں میں ظہور بلیدی، سردار عبدالرحمان کھیتران، نصیب اللہ مری اور دیگر شامل ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پر 14 اراکین صوبائی اسمبلی کے دستخط ہیں۔
ناراض اراکین کاکہنا ہے کہ صوبے میں انارکی کا ماحول پیدا ہو رہا ہے اور اگر وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال جنگ کریں گے تو ہار انہی کی ہو گی۔باپ اور اتحادی جماعتوں کے ارکان نے دعویٰ کیا ہے کہ 8 سے 10 روز کے بعد بلوچستان میں نیا وزیر اعلیٰ ہو گا اور ہمارے گروپ نے ہر طرح کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ جام کمال عزت سے استعفیٰ دے دیں کیونکہ اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔واضح رہے کہ 65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لیے 33 ارکان کی سادہ اکثریت کی ضرورت ہے۔
حکومتی اتحاد 40 ارکان پر مشتمل ہے، جن میں سے 14 نے جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی ہے۔متحدہ حزب اختلاف کے ارکان کی تعداد 23 ہے جبکہ دو ارکان آزاد بینچ کا حصہ ہیں۔گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن اتحاد نے گورنر بلوچستان ظہور آغا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آئین کی شق 130 کی ذیلی شق 7 کے تحت وزیراعلیٰ جام کمال کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں کیونکہ وہ اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔بلوچستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ آچکا ہے اور اب خود بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کے چنداتحادی فرنٹ فٹ پر آگئے ہیں اور جو مطلوبہ ارکان وزیراعلیٰ کی کرسی کے حوالے سے درکار ہیں وہ اپوزیشن کی حمایت سے پورے ہوجائینگے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی حکومت، باپ کے سینٹرز اورمقتدر حلقے اس حوالے سے کیا کردار ادا کرینگے کہ بلوچستان میں تبدیلی یقینی ہوجائے گی یا پھردرمیانہ راستہ نکالاجائے گا جس کے امکانات بہت ہی کم دکھائی دے رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اپنی کرسی بچاسکیں مگر سیاست میں کسی بھی وقت کوئی بھی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے کیونکہ سیاست میںکوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اوراسی حرف آخر پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ اس بحران سے کیا برآمد ہوگا۔