|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2021

بلوچستان کا شمار ملک کے سب سے پسماندہ اور محروم ترین صوبوں میں ہوتا ہے، دہائیوںسے بلوچستان کے ساتھ حکمرانوں کی زیادتیاں جاری ہیں، مرکز سے لیکر صوبائی حکمرانوں تک ، ہر کسی نے بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا، اگر کسی نے بلوچستان کے لیے کچھ بہتر کرنا چاہا تو بدقسمتی سے انہیں کام سے روک دیا گیاانہیں رخصت کیا گیا، فنڈز روک دیئے گئے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے بلوچستان کو کبھی بھی ترقی کی جانب گامزن کرنے نہیں دیا گیا۔ بلوچستان میں آج بھی لوگ بنیادی سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ ایک مسئلہ شاہراہوں کا ہے اندرون بلوچستان اور بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے والی قومی شاہراہیں یاخستہ حالی کا شکار ہیں یا تو پھر دورویہ نہ ہونے کی وجہ سے حادثات کا سبب بنتی ہیں۔

گزشتہ روزسپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں آر سی ڈی ہائی وے خستہ حالی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے ملک بھرکی ہائی ویز سے متعلق نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے رپورٹ طلب کی۔عدالت نے آئندہ سماعت پر چیئرمین این ایچ اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ این ایچ اے کوئی معیاری کام نہیں کررہا۔

جبکہ لاہور اسلام آباد موٹروے کوچھوڑ کرباقی تمام ہائی ویزکو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بتایا جائے کوئٹہ کراچی روڈ پرمسافروں کے تحفظ کیلئے پولیس تعینات کیوں نہیں کی گئی؟ ہائی ویزکی ابتر حالت سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں،کوئٹہ کراچی روڈ کی حالت کو 100 فیصد تک درست کیا جائے۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ہائی ویز پر ریفلیکٹرز، مارکنگ لائنز غیرمعیاری ہیں، روڈ پر کی گئی مارکنگ ایک بارش کی نذر ہوجاتی ہے، چترال گلگت روڈ کاغذوں میں مکمل ظاہرکی گئی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ کراچی روڈ کو موٹروے کی طرز پرکیوں نہیں بنایا جا رہا؟ چترال گلگت روڈ پرصرف پتھرہی پتھر ہیں،گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔جسٹس گلزار نے مزید کہا کہ ہرسال ہائی ویزکی تزئین وآرائش پر اربوں روپے اخراجات دکھائے جاتے ہیں، این ایچ اے سے کراچی حیدرآباد روڈ نہیں بن رہا۔

اس میںکوئی شک نہیں کہ ہر حکومت کی ترجیحات لاہور اور اسلام آباد موٹر وے ہی رہے ہیں سب سے بہترین شاہراہوں سمیت سفری سہولیات ان دوبڑے شہروں کو فراہم کی جاتی رہی ہیں اوردونوں شہر ملکی سیاست کے مرکز بھی کہلاتے ہیں شاید اسی لئے سیاسی مفادات کی غرض سے مرکزی حکومتوںکی ترجیحات محض چند حلقے ہی ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی مفادات حاصل کرسکیں ۔ بلوچستان کے ساتھ ہر وقت مذاق ہی کیاجاتا رہا ہے کتنا بڑا المیہ ہے کہ ملک کا نصف حصہ آج بھی معمولی مسائل کی وجہ سے بڑی مصیبتیں جھیل رہا ہے۔ بہرحال بلوچستان کے عوام کو ہر وقت طفل تسلیاں دی جاتی ہیںاگر کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر حادثات کے حوالے سے سالانہ رپورٹ کاجائزہ لیاجائے تو سینکڑوں اموات اسی شاہراہ پر ہوتی ہیں مگر اب تک اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیاگیا۔

جوقومی شاہراہ ہے جہاں سب سے زیادہ آمدورفت ہوتی ہے ،دیگر صوبوں کے شہر ی بھی اس شاہراہ پر سفر کرنے سے کتراتے ہیں کہ دورویہ شاہراہ اور اسلام آباد لاہور کی طرح کے موٹرویز نہیں ہیں جو سکون سے باآسانی سفر کیاجاسکے بلکہ انتہائی خطرناک شاہراہ ہے دوران سفر کسی بھی مقام پر کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے، امید ہے کہ چیف جسٹس پاکستان جلد بلوچستان کی شاہراہوں کے حوالے سے فیصلہ سنائینگے اور توقع ہے کہ حکمران اس پر ایمانداری سے عمل کرینگے۔