بلوچستان میں سیاسی ماحول کبھی بھی خوشگوار نہیں رہا ہے اس لیے بلوچستان میں بہت ہی کم حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ سیاسی اتحادیوں کے اپنے اختلافات ہی حکومتوں کے خاتمے کاسبب بنتی رہی ہیں جس کی بنیادی وجوہات بہت سی ہیں مگر اس پر حاوی عناصرانا و مفادات ہی رہے ہیں، نظریاتی، گورننس، انتظامی امورکو محض ایک جواز کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔ تاریخی تناظر میں اس کا جائزہ لیاجائے تو بلوچستان میںحکومتی تبدیلیوں کے اسباب واضح طور پر نظرآئینگے، بلوچستان میں بننے والی پہلی نیپ کی منتخب حکومت مضبوط تھی اندرون خانہ اس اتحاد کو کسی طرح کے بھی خطرات کا سامنا نہیں رہا مگر اس میں ایک مسئلہ وفاق کے ساتھ انتظامی اختیارات کے معاملات تھے جو ذوالفقار علی بھٹو اور نیپ کے رہنماؤں کے درمیان اس قدر شدت اختیار کرگئے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ حکومت کے خاتمے کا ٹھان لیا۔
البتہ اسے کسی نہ کسی طریقے سے بلوچستان سے ہی ایک بااثر قبائلی وسیاسی شخصیت کی حمایت درکار تھی ۔المیہ یہ رہا کہ نیپ کے مرکزی رہنماؤں نے اپنے قریبی ساتھی نواب اکبر خان بگٹی کوحکومت بننے کے بعد بعض معاملات سے دور رکھا اور انہیں دیوار کے ساتھ لگادیا،اس دورمیں نواب اکبر خان بگٹی پر الیکشن لڑنے پر پابندی بھی عائد تھی، نواب اکبرخان بگٹی کی مکمل ہمدردیاں نیپ کے ساتھ تھیں اسی لیے نواب اکبرخان بگٹی نے تمام تر وسائل نیپ کے انتخابی مہم پر لگائے اس امید کے ساتھ کہ آگے چل کر اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ مستقل بنیادوں پر سیاست کرینگے ۔بدقسمتی سے نیپ کے ساتھیوں نے بعض اہم فیصلوں پر نواب اکبرخان بگٹی کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ چند اہم اجلاسوں کے دوران نواب اکبرخان بگٹی کی موجودگی بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں تھی۔
ایک اجلاس کے دوران نواب اکبرخان بگٹی موجود تھے کہ نیپ کے ایک سینئر رہنماء نے اعتراض اٹھایا کہ یہاں پر کچھ ایسی شخصیات موجود ہیں جو نیپ کے باقاعدہ ممبر نہیں ہیں لہٰذا ان کی موجودگی میں اجلاس جاری نہیں رہ سکتا بقول نواب اکبرخان بگٹی کے اس جملے کو دوبار دہرایا گیا اور اسے میں نے مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے میرغوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیربخش مری کی طرف دیکھتا رہا کہ میرے دوست اس کا جواب دیں گے مگر انہوں نے کسی طرح کی لب کشائی نہیں کی اور مجھے یہ محسوس ہوا کہ میری عزت نفس کو مجروح کیاجارہا ہے۔
بہرحال اس کے بعد نواب اکبرخان بگٹی نیپ کے ساتھ اپنے تمام تر تعلقات کو ختم کردیتے ہیں مگر نواب اکبرخان بگٹی کی یہ نیت کبھی نہیں رہی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے بطور ہتھیار بن کر نیپ کی حکومت کا خاتمہ کریں۔ جب نیپ اور نواب اکبرخان بگٹی کے تعلقات کے متعلق ذوالفقار علی بھٹو کو علم ہوتا ہے تو وہ مسلسل نواب اکبرخان بگٹی سے رابطے شروع کرتا ہے کسی نہ کسی بہانے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نواب اکبرخان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کی تشہیر اخبارات میں کرتے ہیں تاکہ نیپ کے رہنماؤں کو یہ باورکرایاجاسکے کہ نواب اکبر خان بگٹی اور ذوالفقار علی بھٹو بلوچستان میں بڑی سیاسی تبدیلی کے حوالے سے پلاننگ کررہے ہیں۔ یہیں پر نیپ کی حکومت غلطی کربیٹھتی ہے جب کوئٹہ میں بگٹی ہاؤس کا گھیراؤ کیاجاتا ہے ،ا س وقت نواب اکبرخان بگٹی بلوچستان میں موجود نہیں ہوتے البتہ نواب اکبرخان بگٹی کے بڑے صاحبزادے نوابزادہ سلیم بگٹی گھر میں ہوتے ہیں جسے سرینڈرکا کہاجاتا ہے جس کی اطلاع نواب اکبرخان کو ملتی ہے یہیں سے نواب اکبرخان اور ان کے ساتھیوں کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے اور اس طرح سے ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر نواب اکبر خان بگٹی گورنر بلوچستان بننے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ نیپ کی حکومت کے خاتمے کاجواز کس طرح سے ڈھونڈا گیا اس حوالے سے سب کو علم ہے کہ کس طرح سے نیپ کے رہنماؤں کو پھر جیل میں قید رکھا گیا اور بعدازاں بلوچستان میں ایک شورش نے جنم لیا۔یہ تاریخ کاوہ سیاہ باب ہے جس نے بلوچستان کو پھر سیاسی حوالے سے کبھی مستحکم ہونے نہیں دیا، نیپ کی حکومت کے خاتمے کی وجہ انااور رنجشیں بنیں مگر اس کا ازالہ بھی بعد میں ایک اتحاد کی صورت میں کیاگیا۔
گوکہ قوم پرست کبھی بھی ایک اتحاد کے طورپر کبھی بھی منظم جماعت تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوئے اور نہ ہی اسے مضبوط ہونے دیا گیا ۔بہرحال یہ قوم پرست سیاست کے زوال کی طویل تاریخ ہے ۔ ان تمام حالات کو یہاں بیان کرنے کامقصد یہی تھا کہ ماسوائے 1972ء کے، بعدکی حکومتوں کی تبدیلیوں کی وجہ ذاتی مفادات ہی رہے ہیں اور اب بھی یہ کھیل جاری ہے۔ موجودہ سیاسی بحران کے دوران حکومت یا ناراض واپوزیشن ارکان کی کامیابی کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ،باپ پارٹی ختم بھی ہوجائے گی تب بھی کسی کو رتی بھر فرق نہیں پڑے گا بلکہ یہ کھیل اسی طرح چلتا رہے گا۔ سیاسی مفادات حاصل کرنے والوں کو بلوچستان کے عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی انہیں عوام کے پاس ووٹ کے لیے جاناپڑے گا ۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 20 اکتوبر کو طلب کیاگیا ہے جس میں وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد پیش کی جائیگی ۔اسمبلی کا اجلاس بروز بدھ شام چار بجے ہوگا، گورنر بلوچستان نے تحریک عدم اعتماد کی درخواست پر اجلاس طلب کرلیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد یاترا کرنے والے کس گروپ کا پلڑا بھاری ثابت ہوگا مگراس تمام صورتحال میں فائدہ انہی ارکان کو ملنے والاہے جو جام کمال خان کی کامیابی کے لیے حصہ ڈالیں گے تو ان کے حصے میں بہت کچھ آئے گا اور جو ناراض ارکان کی جھولی بھریں گے ان کی جھولی بھر دی جائے گی ۔