|

وقتِ اشاعت :   October 21 – 2021

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ استعفیٰ نہیں دونگا تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرونگا مجھے استعفیٰ دینے کی بجائے اسمبلی میں ہارنا قبول ہے اگر جیت گئے تو مخالفین برداشت کریں ہار گئے تو ہم اپوزیشن کریں گے ، آج بھی بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے دوست میرے ساتھ ہیں اگر14اراکین اپوزیشن کی مدد سے حکومت تبدیل بھی کرتے ہیں تو بتائیں کہ وہ کہاں بیٹھیں گے ؟۔یہ بات انہوں نے بدھ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔

وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری عمل ہے اپوزیشن کے ممبران نے جس طرح اس تحریک کا ساتھ دیا اس کی بہت ساری وجوہات ہیں بی اے پی اپوزیشن جماعتوں ، تحریک انصاف کے میر نصیب اللہ مری اور بی این پی ( عوامی ) میر اسد بلوچ نے ایوان میں اپنی گفتگو کی میرا گلہ اپوزیشن جماعتوں سے نہیں بنتایقینی بات ہے کہ ساڑھے تین سالوں سے حکومت کی کارکردگی ، ترقیاتی اقدامات اور کام کے نتائج سے اپوزیشن کو سیاسی فائدہ نہیں پہنچا ۔ انہوںنے کہا کہ میرا گلہ نالاں اتحادی اراکین سے بھی نہیں ہے ۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ بلوچستان میں ایسا ماحول بنا ہو ۔ ماضی میں بھی یہ چیزیں ہوتی رہی ہیں پہلے بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آئی ہیں یہ سیاست کا حصہ ہے ۔حکومتوں میں بہت سارے لوگ خوش اور بہت سارے لوگ ناراض بھی ہوجاتے ہیں مگر ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ جب ہم کوئی بات یا تقریر کرتے ہیں تو سوشل اورا لیکٹرانک میڈیا نے اسے بہت نمایاں کیا ہے ہمیں وہ بات کرنی چاہئے۔

جس پر کھڑے بھی رہ سکیں ہم نے اسی ایوان میں چھ مہینے قبل دیکھا کہ یہاںگالم گلوچ تک ہوئی مگر آج کی صورتحال اس کے برعکس تھی یہ جمہوری اور آئینی حق ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات سنیں بجٹ اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ساڑھے تین سال ہمارے ساتھ جن دوستوں نے گزارے ہیں ایک ساتھی نے پوچھا کہ وہ کیوں ناراض ہیں تو میں نے کہا کہ ناراضگی کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا بہت جگہوں پر چیزوں میں شدت بھی آتی ہے جسے برداشت کرنا چاہئے ہمارا تعلق مسقبل میں بھی برقرار ہے گا۔ انہوںنے کہا کہ کسی ساتھی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ستر سالوں میں بلوچستان میں یہ پہلی حکومت ہے جس کے دور میں صوبے میں ترقیاتی عمل تیزی سے جاری ہے شاہراہیں تعمیر ہورہی ہیں ، سپورٹس کمپلیکس بن رہے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ سیاست میں کوئی کسی کو اغواء یا یرغما ل نہیں بناسکتا ۔ ہر شخص اپنے فیصلوں میں انفرادی طو رپر آزاد ہوتا ہے کہ وہ ان کے پاس جائے یا ہمارے پاس ، آج جو دوست وہاں بیٹھا ہے کل وہ واپس آکر ہمارے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں موجودہ ڈیڑھ مہینے کو صوبے کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا انہوںنے کہا کہ میں دوستوں کے پاس گیا ۔

ان سے ملاقاتیں بھی کیں ۔ اور آئندہ بھی میری کوشش ہوگی کہ معاملات کو درست کرکے افہام و تفہیم سے حل کریں ۔ یہ ہماری جماعت ہے کوئی ناراض ہوجائے تو اسے نہیں روک سکتے ۔انہوںنے کہا کہ مجھے بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے 41کے قریب اراکین نے قائد ایوان منتخب کیا ہے میںنے پہلے دن کہا تھا کہ اگر ان اراکین اسمبلی کا اعتماد میں نے کھودیا تو میں استعفیٰ دے دوں گا مجھے اپوزیشن نے قائد ایوان منتخب نہیں کیا اور نہ ہی ووٹ دیا ہے میں استعفیٰ نہیں دوں گا نہ ہی ہار قبول ہے مجھے اسمبلی کے اس ایوان میں ہارنا قبول ہے استعفیٰ نہیں دوں گابھلے مجھے دو دوٹ بھی ملیں یہ میرے لئے باعث فخر ہوگا۔سیاست میں اس قسم کی ہار مستعفی ہونے سے بہتر ہے جب بھی عدم اعتماد کی تحریک آئے گی میں سامنا کروںگا۔آج بھی بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے دوست میرے ساتھ ہیں اگر14اراکین اپوزیشن کی مدد سے حکومت تبدیل بھی کرتے ہیں تو بتائیں کہ وہ کہاں بیٹھیں گے ؟حکومت میں رہیں گے یا اپوزیشن بینچز پر بیٹھیں گے یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے ۔انہوںنے کہا کہ میں ان تمام اراکین کا مشکور ہوں جو میرے ساتھ کھڑے رہے ۔

انہوںنے کہا کہ اپوزیشن کی ایک خاتون رکن نے اپنی تقریر میں یہ اعتراف کیا کہ میں ایک اچھا ایڈ منسٹریٹر ہوں ۔ ایڈمنسٹریٹر کاکام ہی گورننس کو بہتر انداز میں چلانا ہوتا ہے ۔میں کوئی ایڈمنسٹریٹر نہیں جو میری ذمہ داریاں ہیں وہ پوری کرنے کی کوشش کررہاہوں انہوںنے کہا کہ میں اور میرے خاندان نے کبھی ذات ، زبان اور دیگر تعصبات پر یقین نہیں رکھا اپوزیشن لیڈر کا مشکور ہوں جنہوںنے ایوان میں سنجیدہ باتیں کیں ان کی تقریر میں شکایات بھی تھیں اور مشورے بھی تھے اور ان کی باتوں میں وزن بھی تھا انہوںنے کہا کہ ثناء بلوچ نے اپنی تقریر میں بہت ساری چیزوںکا بار بار ذکر کیا یہاں اس وقت جو چھبیس اراکین میری حمایت میں ہیں ان کی بھی عزت ہے بحیثیت رکن یہاں سب کی برابر اور یکساں عزت اور مقام ہے انہوںنے کہا کہ میں نے ساڑھے تین سالوں میں تمام اضلاع کو یکساں ترقیاتی منصوبے دیئے اپوزیشن سے التجا ہے کہ پی ایس ڈی پی اچھی ہے یا بری اس کا فیصلہ وقت کرے گا ۔ انہوںنے کہا کہ ثناء بلوچ نے جو چیلنج دیا کہ ریفرنڈم کرایا جائے صوبے کے دو فیصد لوگوںنے اگر میری حمایت کی تو وہ استعفیٰ دیں گے میں ان کے اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں میرے اپنے حلقہ انتخاب لسبیلہ کی آبادی صوبے کی مجموعی آبادی کا چار فیصد ہے میرے ووٹرز گوادر میں بھی ہوںگے اور اتحادی اراکین اسمبلی نے بھی مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ثناء بلوچ اپنے چیلنج پر قائم رہیں اگر دو فیصد لوگوںنے مجھ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو میں سیاست سے دستبردار ہوجائوں گا اگر نہیں تو پھر ثناء بلو چ اپنے اعلان پر قائم رہیں ۔

انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں جو سڑکیں تعمیر ہورہی ہیں اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہیں وہ صرف میری پارٹی کے ووٹرز کے لئے نہیں بلکہ اپوزیشن کے ووٹرز بھی ان سے مستفید ہوںگے ۔انہوںنے کہا کہ ہر ضلع میں تعلیم پر کام ہورہا ہے میں سمجھ رہا تھا کہ اسد بلوچ ہمارے ساتھ پانچ سال مکمل کریں گے انہیں بردبار پایا اوران کی جدائی کا موڈ سمجھ سے باہر تھا لیکن مستقبل میں انہیں اس غلطی کا احساس ضرور ہوگا ۔ انہوںنے کہا کہ سید احسان شاہ سے قریبی تعلق ہے وہ میرے والد کی کابینہ میں وزیر تھے انہیں انکل کے نظریے سے دیکھتا ہوں مجھے پشیمانی ہوئی کہ سید احسان شاہ کو کابینہ میں کیوں شامل نہیں کیا ابھی وزیراعلیٰ بات کررہے تھے کہ سپیکر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رائے دہی اور ووٹ دینا ہررکن کا حق ہے لیکن کچھ ارکان اسمبلی کا اتہ پتہ نہیں ہے اس موقع پر وزیراعلیٰ نے جواب دیا کہ اگر ان کے لواحقین ایف آئی آر کرانا چاہتے ہیں تو وہ تھانے چلے جائیں سپیکر نے جواب دیا کہ جام صاحب ہمیں اور آپ کو پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے ؟ انہوںنے کہا کہ وہ ارکان جو لاپتہ ہیں وہ پریس کانفرنس کرکے اپنی پوزیشن واضح کردیں یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ارکان اس طرح غائب ہیں وزیراعلیٰ نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بغیر تحقیقات کے ارکان کے اغواء ہونے کا کہہ رہے ہیں اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اپوزیشن کی ایک بات اچھی ہے کہ وہ کھل کر مخالفت کررہے ہیں۔

لیکن جن لوگوں نے دہرا معیار رکھا یہ مناسب عمل نہیں انہوںنے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دبئی ایکپسو میں46کروڑ روپے خرچ نہیں کئے گئے ہرپانچ سال بعد چھ ماہ کا ایکسپو ہوتا ہے جو اس سال دبئی میں ہورہا ہے جس میں پاکستان کے پویلین میں بلوچستان کو نمائندگی دی گئی ہے جس پر ہم اپنی ثقافت ، محکمے ، نمایاں شخصیات کو اجاگر کررہے ہیں اس ایکسپو میں ڈھائی کروڑ لوگ آئیں گے اگر ہم اپنا انکلوژر نہیں بناتے تو پھر بھی اپوزیشن کہتی کہ حکومت نااہل ہے ۔ حکومت ہر مد میں خرچ کرتی ہے ۔سپیکر اپوزیشن ارکان کا گروپ بنائیں اور دبئی ایکسپو میں جائیں انہوںنے کہا کہ حکومت ہر مد میں پیسے خرچ کرتی ہے گوادر میں گزشتہ دو سال سے ریلی امن وامان کی وجہ سے نہیں ہوپارہی تھی یہ معمول کی ریلی ہے اسی طرح کی ریلی دالبندین میں بھی کروائیں گے انہوںنے کہا کہ صوبے کے لوگ کھیلوں کے لئے میدان مانگتے ہیں اب بھی اگر سروے کرایا جائے تو عوام کی بڑی تعداد کھیلوں کے میدان اور سہولیات کو اپنی ضرورت سمجھتی ہے انہوںنے کہا کہ بلیدہ واقعہ کے لواحقین سے دو گھنٹوں تک ملاقات کی اور ان کے مکمل مطمئن ہونے تک دھرنے کو ختم نہیں کرایاگیا بعض اوقات پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوجاتی ہیں ہم نے تو احتجاج کے لئے جگہ مقرر کرنے کی بھی تجویز پر غور کیا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے آٹھ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز نے خط لکھا ہے جس میں ہمارا کوئی کردار نہیں یہ ان کی رائے ہے کہ ہماری حکومت چلتی رہنی چاہئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ حرص ان میں ہوتی ہے۔

جنہیں اقتدار چاہئے ہو ہم تو پوری حکومت چلا رہے ہیں ہمیں کوئی حرص نہیں ہم نے گزشتہ پندرہ سال سے زیر التواء سکیمات کو مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے تاثر دیا جارہا ہے کہ مکران کے لوگ ناراض ہیں ہم سے تو لوگ یہ گلہ کرتے تھے کہ ہم نے سب سے زیادہ کام مکران میں شروع کئے ہیں وزیراعلیٰ نے کہا کہ سی پیک میں دو ہزار تیرہ سے اٹھارہ کے دوران کام نہیں ہوا مغربی روٹ نہیں بنا انڈسٹریل زون بارڈرمارکیٹس ، رابطہ سڑکیں ، پولی ٹیکنیک سمیت دیگر منصوبے نہیں بنائے گئے موجودہ حکومت یہ کام کررہی ہے ماضی کی حکومت کے کام نہ کرنے کے قصور وار ہم نہیں ۔ انہوںنے کہا کہ سیاسی میدان میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اگر ہم نمبر ز گیم پورا نہ کرسکے تو ٹھیک ہے اور اگر ہم نے نمبر گیم پورا کرلیا تو ہمیں برداشت کریں انہوںنے کہا کہ واشک میں مختلف سڑکوں کے منصوبے زیر تکمیل ہیں جن کااعتراف خود واشک کے رکن اسمبلی نے بھی کیا اب تک صوبے میں 6سو سے650ٹریکٹرز دیئے گئے ہیں جن میں میرٹ کو اولیت دی گئی اور اپوزیشن کے جاننے والوں کو بھی ٹریکٹرز ملے ہیں انہوںنے نام لیئے بغیربی این پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لیڈر وہ ہوتے ہیں جو اپنی جماعت کے لئے بہتر فیصلے کریں ہم سے حساب مانگا جارہا ہے لیکن آپ کی اپنی پارٹی کو حکومت کے پہلے سال جو دس ارب روپے ملے ان سے تو آپ کے ہر رکن اسمبلی کے حلقے میں ایک بی آر سی بن سکتا تھا ان دس ارب روپے کی بھی تفصیلات معلوم کی جائیں ۔انہوںنے کہا کہ اپوزیشن اگر کہتی ہے کہ کوئٹہ میں سڑکوں کے منصوبے غلط ہیں تو پھر یہ ان کاموقف ہے انہوںنے کہا کہ بلیدہ اور ہوشاب واقعات کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائیںگے ۔ نور محمد دمڑ جذباتی ہیں اور کھل کر اپنے جزبات کا اظہار کرتے ہیں وہ آج جس گروپ کے ساتھ ہیں کیا وہ اس گروپ سے خوش تھے یا خفا تھے جو لوگ آج تنقید کررہے ہیں کل تک ان کے کیا خیالات تھے اس کی تمام ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہے ہمیں ان خیالات کااظہار کرنا چاہئے جس پر ہم قائم رہ سکیں ۔

ظہور بلیدی تین چار ماہ پہلے اپنی تقریر میں حکومت کی کارکردگی بیان کررہے تھے آج اچانک گورننس خراب ہوگئی ۔ انہوںنے کہا کہ تمام ارکان سے گہرا تعلق ہے ناراضگیاں ہوتی ہیں اور وہ دور بھی ہوسکتی ہیں ۔ آج میں نے انہیں بھی قریب دیکھا جو کل تک ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے میری کوشش ہوگی کہ ناراض ارکان سے جو گلے شکوے اور فاصلے بڑھ گئے ہیں انہیں ختم کریں یہ حکومت کا مسئلہ ہے لیکن اس میں اپوزیشن نے سنجیدہ کردار ادا کرتے ہوئے مائنس ون فارمولہ کے تحت ناراض ارکان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا لیکن مستقبل میں یہی اقدام سوالیہ نشان بن سکتا ہے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اعتماد کااظہار کرنے پر بلوچستان کے عوام اور مخلوط حکومت میں شامل اتحادیوں کا شکر گزار ہوں کس کو عوام کا ساتھ حاصل ہے یہ فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ابھی ووٹنگ میں کچھ دن ہیں چیزیں ووٹنگ میں ظاہر ہوجائیں گی اگر جیت نہیں سکے تو ہم اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے ۔بعدازاں سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث مکمل ہونے کے بعد تمام ارکان کو ووٹنگ کے طریقہ کار کے حوالے سے مطلع کردیاگیا ہے بلوچستان اسمبلی کے قواعدوانضباط کار مجریہ1974ء کے آرٹیکل 19بی (5)کے تحت تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری25اکتوبر بروز سوموار صبح گیارہ بجے ہوگی ۔

دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلو چستان جام کما ل خان نے کہا ہے کہ سیا ست میں تو سب پر اعتماد ہے اور میرے خیال سے سیا ست میں پر اعتماد ی ہو نی بھی چاہیے اور اصل بات ووٹ کے دن ظاہر ہو گی اور جو حقیقت ہے وہ بھی نظر آجائے گی ہما ری اتحادی جما عتیں بشمول بلو چستان عوامی پارٹی ، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیمو کریٹک ، جے ڈبلیو پی اور احسان شاہ ہما رے سا تھ ہیں اور امید کر تے ہیں کہ سر دار ثناء اللہ بھی ہما رے سا تھ ہوں گے ۔ یہ بات انہوں نے بدھ کو بلو چستان اسمبلی کے باہر عدم اعتماد پیش ہو نے سے قبل میڈیا سے بات چیت کر تے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ آج تحریک عدم اعتماد پیش ہونے جا رہی ہے اوربہت سے اسمبلی ممبران نے دستخط بھی کئے ہیں اور اپو زیشن نے بھی انکو اپنی نشاندہی کر وائی ہے تو ہم بھی اسی سلسلے میں آج یہاں آئے ہیںعدم اعتماد کی تحریک آج پیش ہو گی شایدبحث بھی ہو اور پھر اسپیکر بلو چستان اسمبلی ایک دن مقرر کر یں گے چاہے وہ تین دن کے بعد ہو یا سات دن بعد ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتاہے کہ حکومتی ارکان اور ایک پارٹی سے منسلک ارکان اپو زیشن کے سا تھ ملکر کوئی تحریک لا ئیں اپو زیشن تو کبھی بات کر بھی نہیں سکتی ہے حکومتی ارکان کے اندر ایک نا اتفا قی کا ماحول پید ا کیا جا رہا ہے جو کہ میرے خیال سے انکو نہیں کر نا چاہیے کیو نکہ اپو زیشن جب بھی سیاست کر تی ہے وہ اپنے بل بوتے پر کر تی ہے یہ پہلی مر تبہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپو زیشن جو سیا ست کر رہی ہے وہ حکومتی ارکان کے بل بوتے پر کر رہی ہے پچھلے تین سے ساڑھے تین سالوں میں کو لیشن نے اپنی ایسی مضبو طی بنائی ہے کہ وہ مجبور ہو گئے ہیں کہ انکو ہما ری مدد کی ضرورٹ پڑھ رہی ہے ہم پٹھان اور بلوچ ہیں ہم کسی کی دعو توں کو منع نہیں کر تے ہم خو شی غمی بھی کر تے ہیں سیا ست کے ماحول کا فیصلہ اس وقت ہو تا ہے جس دن اصل دن ہو گا اور انشاء اللہ اس دن بہت چیزیں ظاہر ہو ں گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ مجھے سب سے بڑی خوشی ہے کہ ہما ری اتحادی جما عتیں بشمول بلو چستان عوامی پارٹی ، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیمو کریٹک ، جے ڈبلیو پی اور احسان شاہ ہما رے سا تھ ہیں اور امید کر تے ہیں کہ سر دار ثناء اللہ بھی ہما رے سا تھ ہوں گے ان سب لوگوں کی نمائند گی پو رے بلو چستان میں وسیع ہے چاہے وہ پٹھا ن بیلٹ ہو یا بلوچ بیلٹ یا ڈویژن وائز یا اقلیتی ہو یہ جو 26لو گ ہیں وہ سیا سی ما حول کو پیش کر رہے ہیں ہم پہلے دن سے ہی الحمد اللہ بڑے اطمینا ن کے سا تھ ہیں اور بلو چستان میں جو ہم آہنگی کا ماحول پید اہوا ہے اسے خراب نہیں ہو نے دیں گے ، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سر داریار محمد رند میرے سا تھ مشاورت میں تھے ۔