|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2021

اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم نے ملک بھرمیں بدترین مہنگائی اور معاشی بدحالی کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہروں کا آغاز کردیا ہے ۔لاہور اور کراچی سمیت چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی ریلی ومظاہرے کئے گئے۔ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے قائدین اور کارکن مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کریں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی پی ڈی ایم کے زیر اہتمام مری روڈ راولپنڈی میں مہنگائی اور معاشی بدحالی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا اوراحتجاجی دھرنا بھی دیا گیا۔

مہنگائی اور معاشی بدحالی کے خلاف ن لیگ سمیت پی ڈی ایم میں شامل دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے بہارہ کہو میں گزشتہ روزاحتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔احتجاجی مظاہرین نے اس موقع پر حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور اسے مہنگائی و معاشی بدحالی کا ذمہ دار قرار دیا۔پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے مقامی کارکنان نے مظاہرے کے دوران سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرول، گیس، بجلی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کو خود سوزی پر مجبور نہ کرے۔بہرحال پی ڈی ایم کی جانب سے احتجاج کی کال ضرور دی گئی ہے مگر مرکزی قائدین کی عدم شرکت سے احتجاجی تحریک کی سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حوالے سے کس قدر سنجیدہ ہیں کیونکہ کسی بھی بڑی تبدیلی اور تحریک کی کامیابی لیڈر کے فرنٹ لائن کردار سے ہی ممکن ہوتی ہے ہمارے یہاں ایک روایت ہے کہ عوام کو سڑکوں پر شدید گرمی وسردی میں ناگفتہ بہ حالت میں ان کے جذبات اور احساسات کے ساتھ کھیلواڑ کیاجاتا ہے لیڈران خود آرام دہ اسٹیج پر سجے کرسیوں پر بیٹھ کر اپنی تقاریر کرکے روانہ ہوجاتے ہیں جبکہ کارکنان طول وعرض سے آکر طویل احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں جس کا کریڈٹ لیڈران اپنے سیاسی مفادات کے ذریعے حاصل کرتے ہیں یہی وہ المیہ ہے کہ ملک میں کبھی بھی حقیقی تبدیلی نہیں آئی ۔

اقتدار کے حصول کے بعد سیاسی وگروہی مفادات حاصل کئے گئے اور عوامی مسائل کو پس پشت ڈالاگیا ۔اس سے بات سے کسی طور انکار نہیں کیاجاسکتا کہ موجودہ معاشی بحران سمیت دیگر مسائل محض تین سال کی حکمرانی کی نہیں بلکہ دہائیوں پر مشتمل عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہیں کیونکہ کسی بھی بڑی بیماری کااچانک سر پر آنا فوری طور پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ایک سبب ہوتا ہے جو اندرون خانہ زخم کے طورپر بڑھتاہواوقت کے ساتھ ناسور کی صورت میں بڑی بیماری کی صورت میں سامنے آتا ہے اسی طرح ملک کو چلانے کے لیے ہر دور میں قرض لیے گئے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ہاتھوں ملک کو گروی رکھاگیا اور معاشی پہیہ کو چلانے کی کوشش کی گئی۔

جس کے باعث ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلاگیا اور اب ملک اس قدر مقروض ہوکر رہ گیا ہے کہ مہنگائی اور ٹیکسز کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں رہ جاتا ،یہ سب عوام کے خون کو نچوڑ کر ہی کیاجاتا رہا ہے ماضی سے لیکر اب تک ملکی معیشت کو اپنی پیداواری صلاحیت اور وسائل سے چلانے کی زحمت ہی نہیں کی گئی ،اپنے وسائل کو بھی غیرملکی کمپنیوں کے حوالے کرکے چند روپوں کے عوض سونے جیسے ملک کا دیوالیہ کردیا گیا ہے۔ البتہ بات مختصر سی ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں اپنی انااور ضد سمیت دیگر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک وعوام کے وسیع تر مفاد میں قومی ڈائیلاگ کی طرف نہیں جائینگے ملک مزید بحرانات کا شکار ہوگا، ان احتجاجی تحریکوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے کیونکہ سنجیدگی کا عنصر کسی جگہ دکھائی نہیں دے رہا، صرف عوام کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے جذبات سے کھیلنے کا شوق پورا کیاجارہا ہے مگر اس عمل سے کسی کا فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔