|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2021

بلوچستان میں سیاسی تبدیلی اب مذاق بن چکا ہے کس کے پاس کتنی اکثریت ہے واضح نہیں ہو رہا ،دعوے تو اب بھی باپ جماعت کے حکومتی اورناراض اراکین کی جانب سے اکثریت کے کئے جارہے ہیں، بظاہر تو ناراض اراکین نے ایک پاور شو کردیا ہے جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کے اتحادی اتنے پُرامید ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کرنے والے بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں صرف تحریک جمع کروانے تک چند ارکان کے ساتھ دکھاوے کے طور پر نظرآرہے ہیں مگر ووٹنگ کے روز وہ اپنے وعدے کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے حق میں ووٹ دینگے ۔

دوسری جانب ناراض اراکین بھی اسی طرح کا دعویٰ کررہے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے ساتھ اس وقت جو کھڑے نظرآرہے ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے کیونکہ اب بلوچستان کی سیاست اس طرح مسخ ہوکر رہ گئی ہے کہ کسی بھی رکن پر خود بھروسہ قائدین نہیں کرتے کہ وفاداریاں چند منٹ میں ہی تبدیل ہوجاتی ہیں ،المیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں تبدیلی کو بیڈگورننس اور گڈگورننس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، منتخب نمائندگان کو دیوار سے لگانے اور غیرمنتخب نمائندگان کو نوازنے کا کبھی ذکر کیاجاتا ہے تو کبھی فنڈز نہ ملنے کا رونا رویا جاتا ہے تو کبھی حلقوں میں مداخلت اور من پسند وزارتوں کی بندر بانٹ کے حوالے سے شکوے کئے جاتے ہیں، طویل عرصے سے ایک ہی حکومت کی چھتری تلے کام کرنے والے وزراء اور مشیران اچانک سے اختیارات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں ،یہ کھیل کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے اب تک جتنے وزراء اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی ان کی کشتی میں سوراخ اپنے ہی ارکان نے کئے ۔کتنے تعجب کی بات ہے کہ جو بجٹ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی اس پر تحفظات کا اظہاراپوزیشن اور پی ٹی آئی کے سردار یارمحمد رند کے سوا کسی نے نہیں کیا۔ اب اچانک سابق وزراء اور اراکین اسکیمات اختیارات، وزیراعلیٰ ہاؤس تک رسائی پر شور مچارہے ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ تضادات ان کے اپنے بیانیہ میں ہے ،خیر اسے بیانیہ تو نہیں کہاجاسکتا البتہ مفادات ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اپنے مفادات کی خاطر سیاسی بساط کو لپیٹ کر ایک نئی حکومت تشکیل دے کر اپنے کام نکالے جائیں۔

اب جنگ کرسی کی ہی ہے جام کمال خان بھی ڈٹ چکے ہیں ، تا دم تحریر وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنے مستعفی ہونے کے حوالے سے چلنے والی خبروں کو بے بنیاد اور جھوٹ قرار دیا ہے اور دوٹوک انداز میں واضح کردیا ہے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرینگے ،اگر انہیں شکست بھی ہوگی تو وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرینگے ۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے وزیراعلیٰ بلوچستان کو اس کا مقابلہ ضرور کرنا چاہئے مگر جس جانب بارہا اشارہ انہی تحریروں میںکیاجاتارہا ہے کہ بلوچستان کی قبائلی روایات کو خدارا اپنے سیاسی عمل کے ساتھ مت جوڑیں کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںکہ اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لیے کس طرح کے پاپڑبیلنے پڑتے ہیں۔

وزیراعلیٰ کے منصب سے لے کر وزارتیں لینے تک کا عمل اور اپنے حلقے سے جیت کے لیے کن دروازوں سے ہوتے ہوئے پہنچاجاتا ہے ،اس دوران کسی طرح کے قبائلی روایات کا عمل دخل کا دور تک واسطہ نہیں ہوتا اس لئے گزارش ہے کہ اپنے بیانات کے دوران روایات کے لفظ کو استعمال کرکے صدیوں پرانی روایات کے تقدس کو ایک مختصر تبدیلی کے ساتھ نہ جوڑاجائے ،بیشک سیاست کریں۔ یقینا اس کے بعد بھی یہی سیاسی کھیل چلتا رہے گا ،ایک آئے گا دوسرا جائے گا اور اب یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے کہ باپ کاوجود ختم ہونے کو ہے مستقبل میں باپ چند افراد کے یہاں ہوگا مگر اس کی کوئی وقعت اور حیثیت سیاسی حوالے سے بلوچستان میں نہیں ہوگی۔