|

وقتِ اشاعت :   October 26 – 2021

21اکتوبر 2021ء کو بلوچستان کے ضلع کوہلو سے گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈکے ترجمان کے مطابق گیس ذخائر جندران ویسٹ ایکس ویل سے دریافت ہوئے ہیں جس سے یومیہ 24 لاکھ ایم ایم سی ایف ڈی گیس نکلے گی۔ترجمان کا کہنا ہے کہ 1627 میٹر گہرائی کے بعد گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔او جی ڈی سی ایل کے مطابق ملک میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں، جندران ویسٹ ایکس-1 کنواں کی دریافت ملک میں گیس کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال 2020فروری میں بھی گیس کے بہت بڑے ذخائر ضلع قلات سے دریافت ہوئے تھے۔تیل اور گیس کی تلاش کرنے والی سرکاری کمپنی پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی زیر ملکیت بلوچستان میں مارگینڈ بلاک سے دس کھرب مکعب فٹ گیس کے ذخائر دریافت ہونے کا امکان ظاہرکیاگیاتھا۔پی پی ایل پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ بلوچستان کے ضلع قلات میں مارگینڈ ایکس ون بلاک سے ہائیڈرو کاربن دریافت ہوئی ہے تاہم کمپنی نے ان ذخائر کے اصل سائز کا اعلان نہیں کیا۔مارگینڈ ایکس ون میں 30 جون 2019 کو کھدائی کا آغاز کیا گیا تھا اور 4،500 میٹر کی گہرائی میں ماڈیولر ڈائنامکس ٹیسٹنگ (ایم ڈی ٹی) سے ہائیڈروکاربن کی موجودگی کے شواہد ملے۔کنویں کے ڈرل اسٹیم ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ایک دن کی پیداوار 10.7 ملین مکعب فٹ گیس اور 132 بیرل مائع ہو سکتی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ گیس کے ذخائر سے متعلق حتمی اعدادوشمار کنویں کی کھدائی مکمل ہونے کے بعد ہی معلوم ہو سکیں گے۔کمپنی کی جانب سے جاری ابتدائی بیان میں کہا گیا مارگینڈ بلاک کی ساخت پر مبنی ابتدائی تخمینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس بلاک میں ایک کھرب مکعب فٹ ذخائر موجود ہیں تاہم مزید کنویں کھودنے سے اس اندازے کی تائید ہو سکے گی۔گزشتہ15 سال میں دریافت ہونے والے یہ گیس کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔

اس سے ایل این جی کم درآمد کرنی پڑے گی اور ملک کو 900 ملین ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔پاکستان میں گھریلو گیس کی پیداوار سال2000 سے چار بلین مکعب فٹ یومیہ پر برقرار ہے جبکہ اس کے استعمال میں کئی گنا اضافہ ہوا اور ذخائر میں ہر سال سات فیصد کے حساب سے کمی آ رہی ہے۔ملک کی ضروریات پوری کرنے کیلئے پاکستان گیس درآمد بھی کرتا ہے۔ حکومت ملک میں پیدا ہونے والی گیس کی لاگت میں 100 فیصد اضافے کے ساتھ عوام کو فروخت کر رہی ہے۔بلوچستان میں دہائیوں سے گیس ویسے ہی نکل رہی ہے مگر اس کافائدہ کبھی بلوچستان کے عوام کو نہیں ملا ،ظلم کی طویل داستان ہے گیس کی مد میںملنے والے محاصل اور منافع سے بھی بلوچستان کے عوام محروم ہیں حالانکہ اگر انہی وسائل کی رقم بلوچستان پر خرچ کی جاتی تو آج حقیقی معنوں میں یہ خطہ تبدیل ہوچکاہوتا ، یہاں روزگار سمیت تمام تر بنیادی سہولیات لوگوں کو دہلیز پر فراہم ہوتیں مگر ان تمام وسائل سے حکمرانوں نے ہی فائدہ اٹھایا ہے۔

بدقسمتی تو یہ ہے کہ بلوچستان اپنے ہی گیس سے اس قدر محروم ہے کہ سرد علاقوں میں شدید سردی کے دوران گیس نایاب ہوجاتی ہے ،گیس پریشر میں کمی کی جاتی ہے جبکہ بلوچستان کے چند علاقوں کو چھوڑ اکثرعلاقوں میں گیس کی سہولت سرے سے دستیاب ہی نہیں۔ بلوچستان کا وہ علاقہ جہاں سے گیس دریافت ہوا ہے وہاں کے مکین لکڑیاں جلاکر اپنا گزارا کرتے ہیں ۔بہرحال دہائیوں پر محیط یہ ناانصافی کا سلسلہ جاری ہے جس کے ازالے کے دعوے تو کئے گئے مگر اہل بلوچستان کے حصے میں محرومی وپسماندگی کے سواکچھ نہیں آیا۔