کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی کے اہم سرکردہ رہنماؤں کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں بی اے پی کے عبدالقدوس بزنجو،ظہور بلیدی میر جان محمد جمالی اور سردار صالح بھوتانی نے شرکت کی ،اجلاس میں صوبے کے لئے اتحادیوں کے تعاون بنے والی نئی حکومت کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا،طویل مشاورت کے بعد پارٹی کی جانب سے نئے قائد ایوان کے لئے عبدالقدوس بزنجو کے نام پر اتفاق کرلیا گیا جبکہ اسپیکر کے عہدے کے لئے میر جان محمد جمالی پارٹی اور اتحادیوں کے مشترکہ امیدوار ہونگے،اجلاس میں طے کیا گیا قائد ایوان اور اسپیکر کے انتخابات کے بعد کابینہ کے لئے نام بھی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اتفاق رائے فائنل کردئیے جائیں گے۔
اجلاس میں بی اے پی کے رہنماؤں نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی ہے کہ بی اے پی کے نئے قائد ایوان کے لیے پارٹی رہنماؤں میں کوئی اختلافات ہیں ایسی من گھڑت خبریں مخالفین کی خواہشات تو ہوسکتی ہیں لیکن حقیقت نہیں ،عوام افواہوں پر کان نہ دھریں بلوچستان کے لیے ایک مثالی حکومت قائم کریں گے۔ دریں اثناء عبدالقدوس بزنجو وزیراعلی بلوچستان بنے تو یہ دوسری مرتبہ ہوگا کہ وہ کسی حکومت کا تختہ الٹ کر اس عہدے تک پہنچیں گے۔ اس سے پہلے 2018 کے اوائل میں ان کی قیادت میں ق اور ن لیگ کے ارکان نے تحریک عدم اعتماد جمع کراکر نواب ثنا اللہ زہری کو وزارت اعلی سے استعفی دینے پر مجبور کیا تھا۔ 37 سالہ عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بلوچستان کے ضلع آواران سے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو پہلی مرتبہ 2002 میں آواران سے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ جام کمال کے والد جام محمد یوسف کی کابینہ میں وزیر امور حیوانات رہے۔
2013 میں دوسری مرتبہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر آواران سے صرف 544 ووٹ لے کر رکن اسمبلی بنے اس کے بعد انہیں ڈپٹی سپیکر بنایا گیا۔ جنوری 2018 میں نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد عبدالقدوس بزنجو چھ ماہ تک بلوچستان کے وزیراعلی رہے۔ 2018 کے انتخابات سے قبل عبدالقدوس بزنجو اور جام کمال نے مل کر بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل دی۔ عبدالقدوس بزنجو کے والد عبدالمجید بزنجو بھی 1985، 1988 اور 1990 میں رکن بلوچستان اسمبلی رہ چکے ہیں۔ جام کمال خان نے اپنی ہی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی جانب سے جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی قرارداد پر رائے شماری سے پہلے منگل کی رات کو استعفی دے دیا تھا۔ ان کا استعفی منظور ہونے کے بعد گیارہ وزرا اور پانچ مشیروں پر مشتمل بلوچستان کی کابینہ بھی تحلیل کر دی گئی۔جام کمال خان صوبے کے چوتھے وزیراعلی ہیں جنہیں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تاہم ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے استعفی دے دیا۔دریں اثنائبلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر و پارلیمانی لیڈر میر ظہور بلیدی نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ کے لئے میر عبدالقدو س بزنجو کا نام آیا ہے بی اے پی کے دوسرے دھڑے کے ساتھ بھی روابط استوار کر لئے گئے ہیں ہمارا مقصد ہے پارٹی کو یکجا کیا جائے اسپیکر شپ اور وزارت اعلیٰ کے لئے گفت و شنید ہونی ہے ہم جلد ہی مثبت نتیجہ دیں گے۔
یہ بات انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ دو سے تین ماہ تک جاری رہنے والے سیاسی بحران کا خاتمہ ہوگیا ہے وزیراعلیٰ کے استعفیٰ کے بعد ہمارا مقصد حاصل ہوچکا ہے اب ہماری پارٹی کے اجلا س جاری ہیں ابتدائی طور پر وزیراعلیٰ کے لئے عبدالقدو س بزنجو کا نام آیا ہے اس پر ہم قائم ہیں بی اے پی کے دوسرے دھڑے کے ساتھ بھی روابط استوار کر لئے گئے ہیں ہمارا مقصد ہے پارٹی کو یکجا کیا جائے تاکہ وزیراعلیٰ کے جانے سے پارٹی کو نقصان نہ ہو، انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں پارٹی کے اجلاسوں کا سلسلہ جاری رہے گا اسپیکر شپ اور وزارت اعلیٰ کے لئے گفت و شنید ہونی ہے ہم جلد ہی مثبت نتیجہ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں جام کمال خان کا وزیر خزانہ تھا اور بجٹ پاس کروانا تھا لیکن چونکہ میں خود چیزوں کو قریب سے دیکھ رہا تھا پچھلے سال 27ارب کے صوبائی محاصل حاصل کئے اس سال 103ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا ہے جو کہ حاصل نہیں کئے جاسکتے انہوں نے کہا کہ بجٹ میں سوئی گیس کی لیز توسیع کی مد میں55ارب روپے رکھے گئے ہیں مگر پی پی ایل کے ساتھ ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا بجٹ خسارہ جو اس وقت 84ارب ہے مزید بڑھے گا اور اسکا براہ اثر پی ایس ڈی پی پر پڑیگا انہوں نے کہا کہ عوام کو پی ایس ڈی پی سے فائدہ ملے گاانہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو فی الحال حکومت کا حصہ بنانے کا فیصلہ نہیں ہوا ابھی جوڑ توڑ کا عمل جاری ہے ہم حکومت سازی کے عمل کو بخوبی سرانجام دے دیں گے ۔