|

وقتِ اشاعت :   October 26 – 2021

کوئٹہ : وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ مشرف دور سے ملکی سلامتی کے نام پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی پاکستان میں جو جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تاحال جاری ہے جس پر ملکی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت اقوام متحدہ نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیے اور کرتے آرہے ہیں اور حکومت پاکستان سے بار ہا مطالبہ کیا گیا ہے کہ جبری گمشدی کو جرم قرار دیا جائے جو اس ماورائے آئین اقدام میں ملوث ہے۔

انکے خلاف قانونی کاروائی کی جائے جس پر الزام ہےتو گرفتاری کے بعد اسے چوبیس گھنٹے کے دوران کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ انکی حکومتی سطع پر مالی معاونت کی جائے نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی کو جرم کرار دینے کا جو قانون پاکستان میں بنایا گیا ہے اس میں جبری گمشدگیوں کے روک تھام کے حوالے موثر اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی لاپتہ شخص کے اہلخانہ کو تحفظ فراہم کرنے اور نہ ہی انکی مالی معاونت کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ اس میں ایک شک ایسا شامل کیا گیا ہے جس سے جبری گمشدہ شخص کے اہلخانہ اپنا قانونی حق استمعال کرنے سے کترائے گا جو یقینا ایک غیر آینی اقدام ہے۔

جس پر انسانی حقوق کے تنظیموں سمیت اقوام متحدہ نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہیں اسلیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بل پر انسانی حقوق کی ملکی و بین الاقوامی تنظیموں سمیت اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگی کے ساتھ اوپن بحث کے بعد اس بل کو آئین کا حصہ بنایا جائے بصورت دیگر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں طلبا و سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو عدالت میں لے جانے اور کوئٹہ سمیت کراچی اور اسلام آباد میں بھر پور احتجاج کرے گی۔