|

وقتِ اشاعت :   October 31 – 2021

امریکہ کی جانب سے افغانستان میں طالبان حکومت کو فی الحال کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی اور نہ ہی امریکی اتحادی اس حوالے سے کوئی خاص دلچسپی لے رہے ہیں چونکہ انخلاء کے اول روز سے ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے یہی مؤقف سامنے آیا ہے کہ ان کی نظریں افغانستان پر لگی ہوئی ہیں کہ مستقبل میں وہاں کس طرز پر طالبان اپنی پالیسی مرتب کریں گے جس کے بعد یہ طے کیاجائے گا کہ افغان حکومت کے ساتھ روابط کس بنیاد اور طریقے کار کے ذریعے رکھے جائیں گے ۔اب حال ہی میںامریکہ کی جانب سے افغانستان کے لیے رقم جو امداد کی صورت میں دینے کا اعلان کیاگیا اس میں بھی آزادتنظیموں کی مدد لی جائے گی افغان حکومت کو براہ راست یہ رقم نہیں دی جائے گی۔

امریکہ کی جانب سے بتایاجارہا ہے کہ یہ رقم انسانی بنیادوں پر فراہم کررہے ہیں۔ گزشتہ روزمریکہ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کے لئے تقریباً 14 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیاہے۔قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن نے کہا ہے کہ یہ امریکی امداد ایک کروڑ 84 لاکھ سے زائد متاثرہ افغانوں میں براہ راست تقسیم کی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ ان متاثرہ افراد میں ہمسایہ ملکوں میں موجود افغان مہاجرین بھی شامل ہیں۔ اس کام میں آزادانہ طور پر کام کرنے والی تنظیموں کی مدد حاصل کی جائے گی۔اس اضافی امداد کے بعد سال 2021ء کے دوران امریکہ کی جانب سے افغانستان کواب تک مجموعی طور پر تقریباً 47 کروڑ 40 لاکھ ڈالر دئیے جا چکے ہیں جو کسی بھی ملک کی جانب سے دی جانے والی سب سے بڑی امداد ہے۔امداد سے عارضی پناہ گاہیں،روزگار کے وسائل کی فراہمی، صحت کی دیکھ بھال، سرد موسم سے تحفظ، خوراک کی ہنگامی امداد، پانی،طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔اقوام متحدہ کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں بنیادی انسانی ضروریات کی شدید قلت مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ افغانستان کی اندازاً چار کروڑ آبادی کا نصف حصہ یعنی دو کروڑ 28 لاکھ افغان باشندوں کو نومبر سے خوراک کی شدید کمی درپیش ہو گی۔رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر اس سال کے آخر تک پانچ سال سے کم عمر کے 30 لاکھ 20 ہزار بچوں کو غذائیت کی شدید کمی کا سامنا ہو گا۔

بہرحال اس رقم اور امداد میں افغان عوام کو مشکلات سے بچانا شامل ہے مگر یہ مستقل حل نہیں ہوسکتا چونکہ افغانستان میں دہائیوں سے جس تباہی نے افغان عوام کو بد حالی سمیت دیگر مسائل سے دوچار کررکھا ہے اس کا واحد حل افغانستان میں مستحکم حکومت اور دنیا کے ساتھ تجارتی وسفارتی تعلقات کی بحالی پر منحصر ہے اس کے بغیر افغانستان میں موجود بحرانات کم نہیں ہوسکتے بلکہ مزید آگے چل کر گھمبیر ہونے کے خدشات ہیںمگر اس تمام تر صورتحال کے دوران افغانستان میں موجود طالبان کی حکومت کو بعض معاملات پر لچک کامظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ دنیا سے الگ رہ کر طالبان کی حکومت نہ مستحکم ہوگی اور نہ ہی مسائل سے نکل سکتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ افغان باشندوں کی بڑی تعداد اپنے ملک سے انخلاء پر مجبور ہوئی ہے اور دوبارہ اپنے ملک جانے کو تیار نہیں ۔

ان کے ذہنوں میں سرد جنگ سے لیکر نائن الیون کے بعد جنگی صورتحال نے اس قدرگہرے نقوش چھوڑ ے ہیں کہ وہ خوف اور جنگ کے خدشات کے پیش نظر اپنے وطن واپس جانے کے فیصلے سے گھبرارہے ہیں کہ خدانخواستہ دوبارہ جنگی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اب انہی دونوں فریقین ہی پر منحصر ہے جنہوں نے خود دوحا معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اس عمل کو آگے بڑھایا ہے اب مزید مستقبل میں بھی انہی کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ بہتر طرز پر کس طرح سے ایک ساز گار ماحول پیدا کیاجاسکے تاکہ افغانستان میںمستقل امن پیدا ہوسکے کیونکہ وقتی امدادی رقم افغان باشندوں کے مسائل کو حل نہیں کرسکتا بلکہ اس مرض کا ہی خاتمہ کیاجائے جس کا وہ شکار ہیں ۔امداد وقتی مرہم ثابت ہوسکتا ہے مگر افغانستان کی خوشحالی اور امن کیلئے مستقل علاج کا سبب نہیں بن سکتا۔