|

وقتِ اشاعت :   November 7 – 2021

اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا اجلاس سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں مہنگائی سمیت موجوہ حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پی ڈی ایم نے مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کیا اور صوبوں میں مہنگائی مارچ کے بعد اختتام لانگ مارچ کی صورت میں ہو گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مہنگائی مارچ لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں ہو گا۔اجلاس میں پارلیمنٹ میں نیب ترمیمی آرڈیننس کی منظوری روکنے پر اتفاق ہوا جبکہ حکومتی اراکین پارلیمنٹ اور حکومتی اتحادیوں سے بھی رابطے کا فیصلہ کیا گیا۔

پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ مشترکہ اجلاس میں آرڈیننس کو مسترد کرائیں گے۔اجلاس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ہوشربا گرانی کے خلاف مشترکہ طور پر احتجاجی حکمت عملی تیار کرنے پر غور و خوض کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل سمیت کئی سیاستدانوں سے گزشتہ روز ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔اپوزیشن رہنمائوں نے مہنگائی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور ردعمل دینے اور مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر بھی اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ عوام مہنگائی اور اس حکومت کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں،یہ حکومت رہی تو عوام اور معیشت زندہ نہیں رہے گی۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ریلیف کا لالی پاپ دے کر عمران خان نے عوام کو تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔دوسری طرف مہنگائی کے خلاف بکھری اپوزیشن بھی ایک ہونے کو تیار ہے اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے بیک ڈور رابطے کیے جا رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں رابطہ ہوا، مہنگائی کے خلاف مظاہروں میں پیپلزپارٹی اور اے این بی بھی شرکت کے لیے تیارہے۔پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ جلد پی ڈی ایم کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے ، پیپلزپارٹی اور اے این پی کی پی ڈی ایم میں واپسی پر بھی بات چیت ہو گی۔ اپوزیشن کا گرینڈ الائنس دوبارہ بحال تو ہوجائے گا مگر کیا وہ اپنے اہداف حاصل کرپائے گا اور کتنی ہم آہنگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس احتجاجی تحریک کو چلایا جائے گا یہی بنیادی سوال ہے کیونکہ اپوزیشن نے پی ڈی ایم تشکیل دی تھی تو اس دوران بھی پی ڈی ایم کے اندر شخصیات اور سیاسی جماعتوں کی بالادستی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے معاملات سامنے آئے تھے۔

ایجنڈا حالانکہ حکومت بھیجنے کا ہی تھا مگر کس طرح سے ایوان بالا میں اپنی پارٹی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے ایک بڑے الائنس کی پرواہ کئے بغیر مفادات کو حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی کشمکش اور کشیدگی میں پی ڈی ایم کی ہوا نکل گئی اور اب بھی کوئی خاص توقع نہیں کہ اپوزیشن گرینڈالائنس یا پی ڈی ایم کے بکھیرتے شیرازے کو جمع کرکے مضبوط الائنس کے ذریعے آگے لیکر چلے گی کیونکہ اہداف سیاسی جماعتوں کے الگ ہیں ،مفادات کے حصول مختلف ہیں ایجنڈے واضح نہیں ہیں۔ جہاں تک مہنگائی کامعاملہ ہے تو یقینا اس وقت ملک میںتاریخی مہنگائی ہے۔ ستر سال سے زائد عرصے کے دوران اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جو موجودہ دور حکومت میں ہوئی ہے حکومت کے پاس کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ مہنگائی کو ماضی کی حکومتوں کے قرضوں سے جوڑ کر جان چھڑائی جاسکتی ہے کیونکہ اس سے قبل بھی حکومتیں آئی ایم ایف سے قرض لیتی آئی ہیں اور سود بھی دیتے رہے ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ رقم کو بہتر انداز میں مینج کرکے معیشت کے پہیہ کو چلانے کا ہے جو کہ حکومت اس حوالے سے اب تک مکمل ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ بہرحال اپوزیشن میں اتنا دم خم نہیں کہ حکومت پر بڑا دباؤ ڈال سکے کیونکہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ہونے والی احتجاجی تحریک ،لانگ مارچ اس کے واضح ثبوت ہیں کہ اپوزیشن نے اس سے کیا حاصل کیا اورحکومت پر اس کا کتنا اثر پڑا۔