|

وقتِ اشاعت :   November 9 – 2021

ملک میں گیس کے ممکنہ بحران سے بچنے کے لیے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ نے تاریخ کا مہنگا ترین ایل این جی کارگو خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق نومبر کیلئے پی ایل این جی لمیٹڈ نے ایک ایل این جی کارگو 30.65 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو میں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ نومبر میں 2 ایل این جی کارگوز سپلائی سے 2 عالمی کمپنیوں نے معذرت کی تھی، یہ ایل این جی کارگوز19 سے 20 نومبر اور 26 سے 27 نومبر کو ڈیلیور ہونے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں کارگوز کیلئے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ نے ہنگامی ٹینڈر جاری کیے تھے، ان ہنگامی ٹینڈرز پر ایل این جی سپلائی کیلئے 31 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک بولیاں آئی تھیں۔ذرائع کے مطابق 26 سے 27 نومبر کی سپلائی کیلئے 30.65 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو والا کارگو خریدنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ 19 سے 20 نومبر کی ڈلیوری کیلئے ایل این جی کارگوز کے حصول کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ذرائع کا بتانا ہے کہ عالمی کمپنیوں کے منسوخ کیے گئے 2 کارگوز کی بحالی کیلئے بھی بات چیت جاری ہے۔واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز قوم سے خطاب کے دوران ایک مرتبہ پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی ۔قوم سے خطاب میں وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ سردیاں آنے والی ہیں، گیس کا مسئلہ آنے والا ہے۔گیس کی قیمتوں کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امریکا میں قدرتی گیس کی قیمت میں 116 فیصد، یورپ میں 300 فیصد جبکہ پاکستان میں گھروں کو دی جانے والی گیس کی کوئی قیمت نہیں بڑھی، سب چیزیں ملک میں پیدا ہوں تو قیمتیں نہ بڑھنے دیں، جو مہنگائی باہر سے آرہی ہے، ملک میں کشتیوں میں سامان آتا ہے، فریٹ کی قیمتوں میں ساڑھے 300 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک بات تو واضح ہوچکی ہے کہ حکومت کی جانب سے اب تک ایسی کوئی خاص خوشخبری عوام کو تین سال کے دوران نہیں دی گئی جس میں عوام کو بہت بڑا ریلیف دیا گیا ہو ۔

بدقسمتی سے جس ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا اس کے اگلے ہی روز پیٹرول ڈرون حملہ عوام پر کیاگیا اور اس کے بھیانک نتائج مہنگائی کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑرہے ہیں۔ آج ملک بھر میںکوئی ایسی چیز نہیں جو تاریخ کی بلند ترین سطح پر نہ پہنچی ہو، ہر چیز مہنگی ہوکر رہ گئی ہے عوام کی جانب سے شدید ردعمل بھی سامنے آرہا ہے عوام کا غصہ مہنگائی اور موجودہ معاشی صورتحال پر اس لیے زیادہ ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی کی قیادت نے انتخابات سے قبل عوام کے ساتھ بلند وبانگ دعوے کئے تھے کہ اگر ان کی حکومت آگئی تو پیٹرولیم مصنوعات،بجلی، گیس کی قیمتوں میں کسی صورت اضافہ نہیں کیاجائے گا کیونکہ ان کی قیمتوں میں اضافے کا مقصد عوام کو براہ راست متاثر کرنا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی دعوے کئے گئے تھے کہ بیرونی قرض کسی صورت نہیں لی جائے گی۔

اپنی معیشت کو بڑھانے کیلئے اپنی پیداواری قوت وصلاحیت کو بڑھائینگے مگر ان تمام دعوؤں کا نتیجہ سامنے ہے۔ جہاں تک وزیراعظم کایہ کہنا کہ سب چیزیں ملک میں پیدا ہوں تو قیمت نہیں بڑھنے دیں ،پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیس ہمارے ملک میں پیدا ہوتی ہے تو کیونکر گیس بحران کا خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے ویسے بھی بلوچستان میں دہائیوں سے گیس سوئی سے نکل رہی ہے مگر بلوچستان کے بیشتر اضلاع گیس سے محروم ہیں ،ایسے علاقے بھی ہیں۔

جہاں پر گیس پائپ لائن تک نہیں بچھائی گئی ہے ، بلوچستان کے سرد علاقوں میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی گیس پریشر کم ہونے پر عوام سراپا احتجاج بن جاتے ہیں اور یہ ہر سال دیکھنے کو ملتا ہے ۔شدید سردی میں لوگ لکڑیاں جلا کر گزارہ کرتے ہیں، اصل حقیقت سمجھنے یا پھر خود اس سے انجان رہنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔بہرحال ملک اس وقت شدید ترین بحرانات کا شکار ہے اس لیے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان مسائل کا ادراک رکھتے ہوئے عوام کو مزید مشکلات میں ڈالنے کی بجائے بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ان کے مسائل حل کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرے۔