بلوچستان میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران سرکاری محکموں کی گورننس کے ریکارڈطلب کرکے دیکھا جائے کہ ان محکموںنے کتنے احسن طریقے سے اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے صوبے اور عوام کی خدمت کی ہے۔ بمشکل چند ایک ہی محکمے شاید ایسے ہوں کہ ان کی کارکردگی قدرِ بہتر یا تسلی بخش ہو۔ یہ کہنا کہ بہت ہی عمدہ کام کرکے محکمے سے سرکار اور عوام کو فائدہ پہنچا یا گیا ہے اگر ایسا ہوتا توبلوچستان کے غریب عوام چھوٹے چھوٹے مسائل پر سڑکوں پر نکل کر سراپااحتجاج نہ ہوتے۔
آئے روز عوام اپنے بنیادی سہولیات کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں کہ تمام تر ٹیکسز اور بلز دینے کے باوجودانہیںکسی قسم کی سہولیات محکموں سے نہیںملتیں۔ سردی میں گیس سے محروم، گرمی کے دوران بجلی اور پانی ان کے نصیب میں نہیں یہ وہ بنیادی ضروریات ہیںجو عوام روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں شومئی قسمت کہ ان محکموں کے اندر ہونے والے کرپشن یا غفلت پر کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا جاتا کہ عوام سے بھاری بھرکم بلز اور ٹیکس واجبات سب وصول کئے جاتے ہیں پھر انہیں سہولیات سے کیونکر محروم رکھاجاتا ہے، کیا یہ ظلم کی انتہاء نہیں کہ عام شہری جب گیس کنکشن کے لیے درخواست جمع کرواتے ہیں تو سالوں انہیں انتظار کرناپڑتا ہے جبکہ بڑے بڑے پلازے تعمیر کرنے والے مافیاز کو چند ماہ بھی انتظار نہیں کرناپڑتا، ان کی فائلیں آگے پاس کروائی جاتی ہیں اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ ان فائلوں کے نیچے رشوت کے پہیے لگادئیے جاتے ہیں۔
جس سے فوری طور پر گیس کنکشن کی منظوری مل جاتی ہے جبکہ عام لوگ شدید سردی کے دوران گیس سے مکمل محروم ہوکر گیس سلنڈر استعمال کرتے ہیں جس کے باعث خطرناک واقعات رونما ہوتے ہیں خاندانوں کے گھر اجڑ جاتے ہیں مگر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ ان تمام حوالہ جات کا بنیادی مقصد حالیہ ڈاکٹرز کی ہڑتال ہے یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ سول اسپتال کوئٹہ جو بلوچستان کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال ہے اس میں ڈاکٹروں نے اوپی ڈیز کا بائیکاٹ کررکھا ہے بلکہ یہ معمول بن چکا ہے ڈاکٹرز کو مسیحا کا درجہ دیا جاتا ہے بدقسمتی سے اب یہ مافیاکا روپ دھار چکا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے غریب عوام کے لیے اپنی مفت سروس بندکردیتے ہیں جبکہ اپنے نجی کلینکس اوربڑے پرائیویٹ اسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر حاضری دیکر بھاری فیس وصول کرتے ہیں ، ان سے کسی طرح کی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی بلکہ ہر بار حکومت ان کے سامنے بے بس ہوکر مذاکرات کرکے ان کے مطالبات کو تسلیم کرتی ہے، ان سے ڈیوٹی اور کارکردگی کے متعلق محکمہ صحت کے حکام سے ریکارڈ وزیراعلیٰ بلوچستان طلب تو کرے کہ گزشتہ دو حکومتوں کے دوران صحت کے شعبے میں خطیر رقم عوام کے ٹیکسوں سے مختص کی گئی تھی اس سے غریب عوام کو کتنا فائدہ پہنچا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا ہے۔
حالانکہ سب کو اس بات کا علم ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں بڑے ٹیسٹ تو کجا معمولی ادویات تک میسر نہیں مگر اس حوالے سے کبھی بھی ڈاکٹرزایسوسی ایشن نے احتجاج ریکارڈنہیں کرایا کہ عدم سہولیات کے باعث عوام کا بہتر طریقے سے علاج ممکن نہیں مجبوراََ انہیں پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرنا پڑتا ہے ،کبھی بھی ایک موٹی فائل تیار کرکے محکمہ صحت یا وزیراعلیٰ بلوچستان کے سامنے رکھا گیاہو کہ سرکاری اسپتالوں کی ان ضروریات کو پورا کیاجائے تاکہ عوام کو علاج کی سہولیات میسر آسکیں۔ افسوس کامقام ہے کہ ڈاکٹرز کسی دوسرے صوبوں سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ مقامی افراد ہی ہیں اسی غریب صوبے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے لوگوں کی حالت سے مکمل آگاہ ہیں پھربھی ان کی خدمت کرنے کی بجائے انہیں ذہنی کوفت میںمبتلا کرتے ہیں اگر ڈاکٹرز کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو اس کا احتجاج سرکاری ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد کریںپھر ایک اچھا پیغام بھی جائے گا۔
اور ہر سطح پر ڈاکٹرز کے مطالبات کے حق میں آواز بلند ہوگی مگر بات یہی ہے کہ سرکاری محکموں میں بھرتی ہونے کا مقصد مراعات اور بھاری تنخواہ وصول کرنا ہے عوام کو سروس فراہم کرنا نہیں ہے خداکرے اب کے بار وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو سرکاری محکموں کے ریکارڈ طلب کرکے ان کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیں پھر ان کے مطالبات پر نظردوڑائیں ،اگر کوئی ادارہ عوام کو سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے تو ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے بیڈگورننس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کارروائی عمل میں لائی جائے، تبدیلی تب آئے گی وگرنہ اسی طرح سے بلیک میلنگ کا سلسلہ جاری رہے گا سرکاری خزانے کو نقصان تو پہنچ ہی رہا ہے عوام کی مشکلات کبھی ختم نہیں ہونگی۔