|

وقتِ اشاعت :   November 14 – 2021

پاکستان کے سرکاری قرضوں میں تین سال کے دوران 14 ہزار 906 ارب کا اضافہ ہوا اور مجموعی قرض 41 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔وزارت خزانہ کی جانب سے ملک کے اندرونی وبیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کی تفصیلات ایوان میں پیش کی گئیں، وزارت خزانہ کی ایوان بالا میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق حکومت قرضوں پر سود کی مد میں سات ہزار460ارب روپے ادا کر چکی ہے۔تحریری جواب میں بتایا گیا کہ تین سال کے دوران سود کی مد میں 50 فیصد ادائیگی کی گئی۔ موجودہ حکومت کے تین برسوں میں پاکستان کے اندرونی قرض میں 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔ جون 2018 میں ملک کے اندرونی قرض 16 ہزار ارب تھے۔اگست 2021 تک اندرونی قرض 26 ہزار ارب سے بڑھ گئے۔

تین سال میں ملک کے بیرونی قرض میں ساڑھے 6 ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔ جون 2018 میں بیرونی قرض ساڑھے 8 ہزار ارب تھا۔اگست 2021 تک بیرونی قرض ساڑھے 14 ہزار ارب سے تجاوز کرگیا۔ جون 2018 میں ملک پر مجموعی قرض 25 ہزار ارب روپے تھا۔ اگست 2021 تک ملک کا مجموعی قرض 41 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔ملک پر بڑھتے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑرہے ہیں ایک طرف تو غیرملکی سرمایہ ملک میں نہیںآرہا تو دوسری طرف نہ ہی ملک سے بڑے پیمانے پر اشیاء برآمد کی جارہی ہیں جس سے کسی حد تک معیشت کو سہارا ملتا، یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے، ریکارڈ قرض موجودہ حکومت کے دوران ہی لیے گئے ہیں صرف اس بنیاد پر کہ پرانے قرض چکانے ہیں اسی کوجواز بناکر حکمران مہنگائی اور معیشت کی تباہی کی وجہ گردانتے ہیں مگرحکومت نے تین سال کے دوران کوئی بڑی معاشی پالیسی بھی نہیں لائی، صرف وزارتیں تبدیل کی گئیں اور سب سے زیادہ محکمہ خزانہ میں تقرریاں کی گئیں اس کے نتائج بھی کچھ خاص برآمد نہیں ہوئے ۔

لازمی بات ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی صورت میں اس کے تمام شرائط کوہر حال میں تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ معاشی تنزلی کی وجہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننا اور اس کے طے شدہ پالیسی کو آگے بڑھانا ہے اس کے علاوہ کوئی اور آپشن حکومت کے پاس نہیں ۔ بیرونی اور اندرونی قرضوں کا اتنا بوجھ بڑھ چکا ہے کہ عام لوگوں کی زندگی پر اس نے انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اب کوئی ایسا طبقہ نہیں بچا جو اس بڑے معاشی بحران کے شکنجے میں نہ آیا ہو۔ دوسری جانب ملک میں اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں تو لازمی بات ہے کہ تمام چیزوں کی قیمتوں پر اس کے اثرات پڑتے ہیں ۔ حکمرانوں کے پاس اب بھی دو سال کا وقت ہے مگر کوئی معاشی پالیسی واضح نہیں ہے کہ مستقبل میں اس بحران پر کیسے قابو پایاجائے گا ۔حکمرانوں کو ہرجگہ تنقید کا سامنا کرناپڑرہا ہے اور یقینا ان حالات سے اپوزیشن اپنی سیاسی حکمت عملی کا رخ تبدیل کرے گی ۔اب اپوزیشن نے مہنگائی کو ایجنڈا بناکر سڑکوں پر نکل آئی ہے، ایک پورا پلان ترتیب دیا گیا ہے جس سے آگے چل کر حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہونگی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرضوں کے بوجھ سے کس طرح نکلا جائے گا، یہ جواب حکومت کے پاس نہیں ہے جس طرح کی منطق وزراء پیش کررہے ہیں اس پر تعجب ہی کیاجاسکتا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے کابینہ ارکان کو یہ احکامات دے رکھے ہیں کہ عوام تک ہماری بہترین پالیسی کو آسان لفظوں میںپہنچائیں، اب وزراء کس طرح مہنگی اشیاء کو سستی ثابت کرسکیں گے ، مہنگائی کے متعلق ان کے پاس کیا جوابات ہونگے عام لوگ تو صرف ریلیف کے منتظر ہیں جس کے فی الحال کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔