کوئٹہ : بلو چستان اسمبلی کے اپو زیشن اراکین نے جامعہ بلو چستان سے لا پتہ ہو نے والے 2نوجوان طلباء کی عدم با زیا بی پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے فوری طورپر نو جوانوں کو با زیا ب کر وانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ حکومت بلو چستان کا کہنا ہے کہ طلباء کی با زیا بی کے حوالے سے کو ششیں جا ری ہیں ، جمعہ کو بلو چستان اسمبلی کے اجلاس میں سابق وزیراعلی چیف آف سراوان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک مسئلہ ہے جو دیگر تمام مسائل سے بڑا ہے وہ لاپتہ افراد کا ہے ہمارے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں یونیورسٹی آف بلوچستان سے دو نوجوان اغواء ہوئے ہیں اب ہمارے طلباء پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند کئے جارہے ہیں پہلے تو لوگ گھروں سے اغواء ہوتے تھے اب بات تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔
پورے ایوان سے گزارش ہے کہ جبری گمشدگی کیخلاف احتجاج کریں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سلسلے کو بند کیا جائے اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے ، یہ ایوان لاپتہ افراد سے متعلق واضح پالیسی بنائے۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصر اللہ زیرے نے کہا کہ یکم نومبر سے یونیورسٹی ہاسٹل سے دو طلباء لاپتہ ہیں پہلے تو گھر والے سمجھتے رہے کہ وہ ہاسٹل میں ہیں اور ہاسٹل میں دوست سمجھتے رہے کہ وہ اپنے گھروں میں ہیں جب طلباء کو یہ علم ہوا کہ دونوں طالب علم لاپتہ ہیں تو انہوں نے احتجاج کیا ، یونیورسٹی بند کرکے دھرنا دیا جس پر صوبائی حکومت نے مسئلے کے حوالے سے کمیٹی بنائی جس میں دیگر معزز ارکان کے ساتھ میں بھی شامل تھا ہم طلباء کے پاس گئے ان سے بات کی صورتحال یہ ہے کہ یکم نومبر کو طلباء لاپتہ ہوئے اور آج 19 نومبر ہے اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے ، یوں طلباء کو لاپتہ کرنا درست نہیں ، والدین اپنے بچوں کو حصول علم کیلئے تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں ان کے لاپتہ ہونے سے طلباء اور اساتذہ پریشانی کا شکار ہیں صوبائی حکومت نئی نئی ا?ئی ہے تمام متعلقہ حکام سے کہتے ہیں کہ اگر سعد رضوی رہا ، ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو پھر رکن قومی اسمبلی علی وزیر ایک سال سے کیوں جیل میں ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کے لاپتہ ہونے کا مسئلہ دیرینہ ہے ، یہ مسئلہ سپریم کورٹ تک بھی گیا ہے ، بلوچستان میں اس وقت یہ مسئلہ خوف اور نفسیاتی بن چکا ہے
گھر سے نکلنے والا ہر شخص پریشان رہتا ہے ، یونیورسٹی آف بلوچستان کے اندر وی سی کی اجازت کے بغیر کوئی ادارہ یا اس کے اہلکار داخل نہیں ہوسکتا انہوں نے زور دیا کہ وائس چانسلر کو بلاکر ان سے اس بابت بات کی جائے ، انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی میں میں بھی شامل تھا پولیس حکام نے ہم سے کہا کہ طلباء سے دو تین دن کی مہلت لے کردی جائے جس پر ہم طلباء کے پاس گئے ان کی بات سنی اور ان سے چار دن کی مہلت لی مگر اب پولیس کی جانب سے کوئی پیشرفت نہیں ہورہی ، انہوں نے سی ٹی ڈی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کا کردار مشکوک ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں کروڑوں روپے کی لاگت سے کیمرے لگائے گئے ہیں مگر یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والے بچوں کی فوٹیج کیوں نہیں ، یہ کیمرئے صرف طلباء و طالبات کو بلیک میلنگ کیلئے لگائے گئے ہیں ، انہوں نے زور دیا کہ اس مسئلے پر پارلیمانی کمیٹی بنائی اور یونیورسٹی حکام کو طلب کیا جائے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے احمد نواز بلوچ نے کہا کہ دن کی روشنی میں طلباء لاپتہ ہوئے ہیں سی ٹی ڈی بلوچستان میں سفید ہاتھی بن چکا ہے دونوں لاپتہ طلبا ء اپنے شعبے میں پوزیشن ہولڈر ہیں اور انتہائی غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں بچوں کو پڑھا کر اپنا گزاراہ کرتے ہیں ان کے گھروں کی حالت جا کر دیکھیں دو طلباء کا یونیورسی سے لاپتہ ہونا سوالیہ نشان ہے کیمروں اور سیکورٹی گارڈز کی موجودگی میں بچے کیسے اغوا ہوئے اپنے دوستوں کی بازیابی کیلئے احتجاج کرنے والے طلباء نے تو ہماری بات مانی مگر حکومت کی طرف سے کوئی پیشرفت نہیں انہوں نے کہا کہ میرے حلقے سے بھی کچھ نوجوان لاپتہ ہیں یہ ایک اہم مسئلہ سے اسے دیکھا جائے۔
جمعیت علماء اسلام کے زابد علی ریکی نے کہا کہ طلباء کا اغواء اہم مسئلہ ہے امید ہے کہ حکومت اور حکومتی کمیٹی اس پر پیشرفت کرتے ہوئے طلباء کو جلد بازیاب کرائے گی اور یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کی توجہ 25 اکتوبر کے اجلاس میں اس وقت کے اسپیکر کی جانب سے گزشتہ دو ماہ کے دوران مختلف محکموں کے ٹینڈرز کی منسوخی سے متعلق رولنگ کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس رولنگ پر اب تک عملدرآمد نہیں ہواعملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ صوبائی وزیر سردارعبدالرحمٰن کھیتران نے جامعہ بلوچستان کے دو طلباء کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے کہا کہ واقعے کے بعد میری سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی ، جس میں معزز ارکان اسمبلی سمیت متعلقہ اعلیٰ سرکاری حکام شامل ہیں ، میں طلباء کا شکریہ ادا کرتا ہوں جب ہم ان کے پاس بات چیت کیلئے گئے تو انہوں نے ہمیں عزت دی اور ہماری بات سنی اور اپنا احتجاج ہماری گزارش پر چار دن کیلئے ملتوی کیا ، انہوں نے کہا کہ اس دوران کچھ اتفاق ایسا ہوا کہ صدر پاکستان دو دن کے لئے کوئٹہ آئے جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان ناسازی طبیعت کی خرابی کے باعث کراچی میں ہیں اور آئی جی پولیس اپنے بھائی کی وفات پر فاتحہ پر بیٹھے ہیں ، انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم نے دوبارہ طلباء سے جمعہ کی شام تک کا وقت لیا اور طلباء نے بھی اپنا احتجاج پورے صوبے کی بجائے صرف بلوچستان یونیورسٹی تک محدود کیا انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کے دورہ کوئٹہ کے دوران گورنر اور وزیراعلی نے بھی اس مسئلے کو ان کے سامنے رکھا اور صدر نے یقین دلایا کہ وہ اس مسئلے کو اسلام آباد میں جاکر اٹھائیں گے انہوں نے کہا کہ ہم یونیورسٹی سے فورسز ہٹانے کے ساتھ ماضی کی طرح پولیس چوکی قائم کرنا چاہتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں 160 کیمرے لگے ہوئے ہیں جس پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں۔
مگر بجلی نہ ہونے کی صورت میں بیک اپ کا کوئی نظام نہیں جس پر گورنر بلوچستان نے بھی سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے دو دن کے اندر رپورٹ طلب کی اور کہا کہ اگر فوری طور پر فنڈز دستیاب نہیں تو وہ اپنی جانب سے اس کیلئے فنڈ دینے کیلئے تیار ہیں ، انہوں نے کہا کہ وی سی جامعہ بلوچستان سے ہماری بات ہوئی مگر گورنر اور میرے سمیت کوئی بھی وائس چانسلر کی کسی بات سے مطمئن نہیں دوسری جانب جس دوران یہ بچے لاپتہ ہوئے ہیں وائس چانسلر کا موقف ہے اس دوران بجلی نہیں تھی انہوں نے کہا کہ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہوسکی ہے کہ بچے کہاں ہیں پولیس حکام کا موقف ہے کہ یہ بچے انہوں نے نہیں اٹھائے صوبائی وزیر نے کہا کہ چاہے بچے کسی ادارے نے اٹھائے یا کسی نے اغواء کئے ہیں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہیں بازیاب کرائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے ، انہوں نے کہا کہ لاپتہ طلباء کی بحفاظت بازیابی کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوششیں کررہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ طلباء ضرور احتجاج کریں لیکن ان سے کہتے ہیں کہ وزیراعلی کی واپسی اور آئی جی پولیس کے اپنے بھائی کی فاتحہ خوانی کے بعد کوئٹہ آنے تک ہمیں وقت دیں ہم ہر حال میں طلباء کو بازیاب کرائیں گے ، جے یو آئی کے زابد علی ریکی کی جانب سے مختلف محکموں کے ٹینڈرز سے متعلقہ اٹھائے گئے نکتے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیر کو اس سلسلے میں ایک اہم اجلاس ہورہا ہے اب تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے تاہم یقین دلاتا ہوں تمام ٹینڈر میرٹ کی بنیاد پر ہوں گے اور کسی علاقے سے کوئی نا انصافی نہیں ہوگی ، بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔دریں اثناء بلو چستان اسمبلی کے اجلاس میں کوئٹہ میں ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے قیام اور واشک میں پاسپورٹ آفس کے قیام کی الگ الگ قر ار دا دیں منظور کر لیں گئیں ۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ 20 منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سرادر بابر خان موسیٰ خیل کی صدرات میں ہوا ، اجلاس میں پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ خان زیرے نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے رش کی وجہ سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ، جس کی وجہ سے معمول کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے ، لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کیلئے ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے قیام کی بابت فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائے۔ قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے محرک نے کہا کہ کوئٹہ میں بڑھتی ہوئی آبادی اور گاڑیوں کی بہتات کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے شہریوں کو گھنٹوں ٹریفک میں انتظار کرنا پڑتا ہے ، کوئٹہ میں قائم تجاوزات اور پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں موٹرسائیکلوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ سڑکوں پر قائم تجاوزات بھی ٹریفک جام کا سبب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کراچی ، کوئٹہ لورالائی ، ژوب ، چمن ، نوشکی قومی شاہراہوں پر ٹریفک حادثات میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں ، انہوں نے تجویز دی کہ کوئٹہ میں ٹریفک کی روانی کیلئے بااختیار ٹریفک انجینئرنگ بیورو قائم کیا جائے جو کسی محکمے کے زیر اثر نہ ہو جبکہ موجودہ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے ایک جامع ٹریفک مینجمنٹ پلان تشکیل دیا جائے۔ صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی میر ظہور احمد بلیدی نے کہا کہ ماضی میں کوئٹہ میں ٹریفک نظام کو بہتر نہیں بنایا جاسکا کوئٹہ پیکج پر بھی خاطر خواہ کام نہیں ہوا ، کوئٹہ پیکج کے تحت سڑکوں کو چوڑا کیا جارہا ہے۔
تاہم اس حوالے معاوضہ کی ادائیگی کا مسئلہ ہے جسے بروقت حل نہیں کیا جاسکا ، انہوں نے کہا کہ اب نہ صرف کوئٹہ میں ٹریفک کا مسئلہ ترجیہی بنیادوں پر حل کیا جائے گا ، بلکہ کوئٹہ میں ماس ٹرانزٹ نظام لانے پر بھی غور کیا جارہا ہے تاکہ لوگوں کو سفری سہولیت میسر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ معزز رکن کی تجاویز پر وزیراعلیٰ بلوچستان سے مشاورت کریں گے تاکہ ایک بہتر نظام لائیں ، انہوں نے کہا کہ اس وقت کوئٹہ کی جو ضروریات ہیں وہ صوبے کے کسی شہر کی نہیں حکومت ان مسائل کے حل کیلئے ممکنہ وسائل بروئے کار لائے گی بعدازں ایوان نے کوئٹہ میں ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے قیام کی قررار داد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن زابد علی ریکی نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ واشک جو رقبہ کے لحاظ سے بلوچستان کا سب سے بڑا ، منتشر آبادی اور پسماندہ ترین اضلاع میں شمار ہوتا ہے کو ہر دور میں نظر انداز کیا گیا یہاں تک کہ اس جدید دور میں بھی وہاں پاسپورٹ آفس کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا ہے ، جس کی وجہ سے وہاں کے عوام کو پاسپورٹ کے حصول کی خاطر صوبہ کے دور دراز دیگر اضلاع میں جانا پڑتا ہے ، جس کی وجہ سے انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ صوبہ کے دیگر اضلاع کی طرح واشک میں بھی پاسپورٹ آفس کے قیام کے بابت عملی اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائے تاکہ وہاں کے لوگوں کو پاسپورٹ کے حصول میں درپیش مشکلات کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ صوبائی وزیر میر ظہور احمد بلیدی نے رکن اسمبلی کو یقین دہانی کرائی کہ واشک ، آواران سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں پاسپورٹ آفسز کے قیام سے متعلق وزیراعلیٰ بلوچستان نے ڈی جی امیگریشن پاسپورٹ سے ملاقات کی ہے ملاقات میں ڈی جی امیگریشن نے نے وعدہ کیا کہ جلد ان علاقوں میں پاسپورٹ آفسز قائم کئے جائیں گے ، بعد ازاں ایوان نے واشک میں پاسپورٹ آفس کے قیام کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔