|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2021

بلوچستان یونیورسٹی میں لاپتہ دو طلباء کی بازیابی کے حوالے سے گزشتہ کئی روز سے احتجاجی دھرنا جاری ہے، طلباء تنظیموں کی جانب سے یہی مطالبہ کیاجارہا ہے کہ دونوں طلباء کی بازیابی تک ہم اپنااحتجاج جاری رکھیں گے جبکہ حکومت کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب ہمیں نہیں مل رہا اور ملاقاتیں بھی بانتیجہ ثابت نہیں ہورہی ہیں جب تک عملی طور پر اقدامات نہیں اٹھائے جائینگے اور ہمیں مطمئن نہیں کیاجائے گا ہم اپنا احتجاج نہ صرف بلوچستان یونیورسٹی بلکہ بلوچستان سمیت اسلام آباد تک مارچ کرکے پھیلائینگے۔

بہرحال یہ ایک تشویشناک بات ہے دو طلباء کو یونیورسٹی سے لاپتہ کرنا کسی طرح بھی ایک اچھا عمل نہیں ہے کیونکہ اس سے ایک اچھا پیغام بلوچستان سے ملک کے دیگر حصوں میں نہیں جائے گا چونکہ بلوچستان میں پہلے سے ہی مسائل بہت زیادہ ہیں اور ماضی کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح سے امن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث بلوچستان کئی عرصے تک جلتا رہا جس کی وجہ بلوچستان کے عوام کی محرومی وپسماندگی ہے جو بنیادی مسئلہ اور سوال بھی ہے جسے مستقل حل کرنے کی کوشش کسی بھی حکومت نے نہیں کی بلکہ دعوے ہی کئے گئے کہ اقتدار میں آکر ہماری ترجیحات بلوچستان کے مسائل کو حل کرنا ہے، لیکن مسئلہ تو بلوچستان کا حل اب تک نہیں ہوا ،مزید بگاڑ پیدا کرنا حالات کو کسی اور رخ لے جائے گا جو ناراضگی ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے ناکہ اس طرح کے اقدام اٹھائے جائیں کہ نوجوان نسل کے دلوں میں نفرت پیدا ہو اور خاص کرتعلیمی اداروں کے اندر مستقبل کے معمار خود کو غیر محفوظ تصورکریں۔

یہ ایک بڑا المیہ اور خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے لہٰذا حکومتی سطح پر اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے جامعہ بلوچستان میں احتجاجی طلباء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے مجھے مذاکراتی کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا،،یکم نومبر کو جامعہ بلوچستان کے 2 طالب علم اغواء ہوئے، طالب علموں کی بازیابی کیلئے احتجاجاً جامعہ بلوچستان کے طلباء نے یونیورسٹی میں دھرنا دیا، طلباء تنظیموں نے ہمیں عزت و احترام دیا ہے، صوبائی وزیر سردار کھیتران نے کہاکہ احتجاج کے دوران طلباء سے مذکرات کیلئے کئی بار ملاقاتیں کی ہیں، اغواء کیے گئے طلباء کے معاملے کو وزیر اعلیٰ بلوچستان خود دیکھ رہے ہیں، طلباء کو قائل کیا ہے کہ تمام صوبے کے تعلیمی اداروں کو فعال کر دیں، بلوچستان بھر میں کل سے تمام تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہیں گی، سردارعبدالرحمن کھیتران کا کہنا تھا کہ طلباء کواحتجاجی دھرنا ختم کرنے کا کہہ دیا ہے، طلباء کا احتجاج جامعہ بلوچستان تک محدود رہے گا، دونوں طالب علموں کی بازیابی تک جامعہ بلوچستان بند رہے گی۔

15 دن کے اندر طلباء کا سراغ لگا لیا جائے گا، سرد موسم کے باوجود طلباء کا احتجاجی دھرنا جاری رہا ہے،انہوں نے کہاکہ بلوچستان پہلے سے پسماندہ ہے ،نہیں چاہتے تعلیمی ادارے بند رہیں، بلوچستان کے طلباء و طالبات باصلاحیت ہیں۔ بہرحال صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کی جانب سے یقین دہانی کرادی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ لاپتہ دونوں طلباء کی بازیابی کب تک عمل میں آئے گی اور شدید ٹھنڈمیں بیٹھے طلباء کے احتجاج کو ختم کرکے ان کی تعلیمی سرگرمیاں کب بحال ہونگی۔ امید اور توقع کی جاسکتی ہے لیکن اس طرح کے عمل سے اجتناب ضروری ہے جو بھی اس واقعے میں ملوث ہو ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور اصل حقائق کو بھی سامنے لانا ضروری ہے تاکہ عوام میں موجود بے چینی دور ہوسکے۔